مَیں کوئی محقق ہوں نہ مورخ…… مگر اتنا دعوا ضرور کرتا ہوں کہ مجھے غیر متنازع، مستند اور تسلیم شدہ مورخین سے استفادہ کی سعادت حاصل رہی ہے۔ اُن سے گھنٹوں پر محیط بامقصد گفت گو کا موقع ملا ہے۔ شکر ہے کہ سوات کے بارے میں اُن عظیم مورخین کی کاوشیں کتابی صورت میں میسر ہیں اور عام قاری کے لیے دست یاب بھی ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ سوات کی تاریخ کو کیسے "Amature” لکھنے والوں کے مسخ کرنے کے عمل سے بچایا جائے؟ آج کل ذرائع ابلاغ اتنے بہ کثرت اور ہر ایک کے دسترس میں ہیں کہ مواد جیسا بھی ہو، پھیلتا چلا جاتا ہے۔ پھر اُس پر ’’کمنٹس‘‘ اور اپنے تجربوں کی کثرت سے سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ایسی غلط اور حقائق سے ماورا معلومات ’’فیڈ‘‘ ہورہی ہیں جس کے سد باب کے لیے انفرادی نہیں، بل کہ اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ابتدائی اقدام کے طور پر سوات کے سکولوں میں صرف آدھا گھنٹا تاریخِ سوات کے لیے وقف کرنا ضروری ہے۔ مجوزہ نصاب کے لیے تاریخ سے متعلق کالج اور یونیورسٹی لیول کے اساتذہ کرام کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ سوات کی قدیم تاریخ یعنی بدھا، سکندرِ اعظم، ہندو شاہی یا سلاطینِ جہانگیری اور یوسف زئی کی آمد سے لے کر 1917ء تک صدیوں پر محیط واقعات پر اتنا متضاد میٹریل نہیں، جتنا 1917ء سے 1969ء کے 52 سالہ ریاستی دور پر ملتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے مزید گم راہ کن اور متنازع تحاریر سامنے آرہی ہیں۔
آج اتوار کے روز (2 جون) جناب ڈاکٹر سلطان روم سے اس بارے میں طویل نشست ہوئی اور کئی نِکات پر سیر حاصل بحث کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کا واحد حل سوات کے تعلیمی اداروں میں مختصر دورانیے کی کلاسیں شروع کرنا ہے۔ اس طرح متوازن اورغیر جانب دار کتابیں کورس میں شامل کی جائیں اور سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی "Disinformation” کا اثر زائل کرنے کے لیے مناسب احتیاطی طریقے موثر طور پر بروئے کار لائے جائیں۔ اس طرح کے کورس شروع کروانے کے لیے کسی لمبے چوڑے بجٹ کی ضرورت نہیں۔
اس حوالے سے مَیں نے ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کو بتایا کہ ہم کو پرائمری کلاسوں میں مظفر حسین (مرحوم) کی کتاب ’’ارمغانِ سوات‘‘ پڑھائی جاتی تھی۔ باقی پورا تعلیمی سلیبس صوبائی محکمۂ تعلیم مہیا کرتا تھا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ (ڈاکٹر سلطانِ روم)
ریاستِ سوات اور سیاحت (کامریڈ امجد علی سحاب)
ریاستی دور کا سوات سنیما (ساجد امان)
ریاستِ سوات کا تاریخی چِرڑوں سنیما (فیاض ظفر)
ریاستِ سوات کے تعلیمی وظائف (ڈاکٹر سلطانِ روم)
ریاستِ سوات کا خفیہ فنڈ (ڈاکٹر سلطانِ روم)
’’ارمغانِ سوات‘‘ میں سوات کا نقشا، موسم، فصلیں، مواصلات اور دیگر متعلقہ مواد شامل تھا۔ نیز قابل دید مقامات کی تصاویر اس میں مہیا کی گئی تھیں۔
اب اسی طرز کی ایک کتاب گذشتہ 52 سال کی مختصر مگر جامع مضامین کی صورت میں ایک نصاب مرتب کرنے کے لیے صرف تاریخ کے مستند اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائے اور سوات کی تاریخ کو مسخ ہونے سے بچایا جائے۔
اُس روز ڈاکٹر سلطان روم صاحب کے ساتھ خلافِ معمول طویل نشست ہوئی۔ اس دوران میں مختلف موضوعات پر گفت گو ہوئی۔ خصوصاً سوات ہماری گفت گو کا موضوع رہا اور بہ قولِ شاعر
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
ڈاکٹر سلطانِ روم نے کئی نِکات پر اپنے خیالات سے مستفید کیا۔ اُنھوں نے مختلف بین الاقوامی اور قومی جرائد میں اپنے حالیہ مقالات کی فوٹو کاپیاں بھی عنایت کیں۔ مجھے پہلی دفعہ اُن کے پشتو میں لکھے گئے تاریخی مضامین پڑھنے کا موقع ملا، جو میرے لیے بہت حیران کُن بات تھی۔ مَیں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب انگریزی اور اُردو کے علاوہ پشتو میں تاریخ کے دقیق موضوعات پر یوں روانی اور عالمانہ انداز کو برقرار رکھتے ہوئے تفصیل سے اظہارِ خیال کریں گے۔
اِن بیش قیمت مقالات کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج کے بورڈ آف سٹڈیز، شعبۂ تاریخ کی دوسری میٹنگ کے کچھ نوٹس تھے۔ اُن میں تاریخِ سوات 327 قبل مسیح سے 2017 عیسوی تک کے کورس کے لیے نظام الاوقات، منتخب موضوعات، مجوزہ کورس کے لیے موزوں کتابوں کی فہرست مہیا کی گئی ہے۔
کورس کے عنوانات میں سوات کا مختصر طبعی اور سیاسی جغرافیہ، سکندر کی آمد، موریا، ہندی، یونانی، کشان، ترک شاہی، ہندو شاہی کا سرسری جائزہ، مسلمانوں کی آمد سولھویں صدی تک، یوسف زئی کی سوات آمد، مغل اور سوات، برطانیہ اور سوات، ریاستِ سوات کی تشکیل، فیز 1: 1915ء تا 1917ء، فیز 2: 1917ء تا 1969ء، ریاستِ سوات کی توسیع، خارجہ امور، سوات ریاست کا نظام (سول، فوج، مالیات اور نظامِ عدل)، ادغام اور بعد از ادغام اُٹھنے والے مسائل، دہشت گردی وغیرہ ہے۔ ان تمام عنوانات کے لیے موزوں کتابوں کی فہرست بھی ساتھ ہی درج کی گئی ہے۔
بہ ظاہر کورس نہایت جامع اور اشد ضروری ہے۔ مذکورہ ملاقات میں ایک کوتاہی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں ڈاکٹر صاحب سے یہ پوچھ نہ سکا کہ آیا یہ نصاب رو بہ عمل لایا گیا ہے، اگر ایسا ہے، تو کیا اس طرح سوات کی تاریخ محفوظ ہوسکے گی؟
ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کے دیگر ملفوظات کے بارے میں اگلی کسی نشست میں بات کی جائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔