مشہور ہے کہ جب مینگورہ سوات میں والدین خواب دیکھتے، تو دیکھتے کہ اُن کے بچے ڈاکٹر عارف صاحب کی طرح بن گئے ہیں۔
ایک لمبے عرصے تک سرجن ڈاکٹر عارف صاحب مینگورہ کے لوگوں پر ایک سحر کی طرح طاری رہے۔ آپ اُنھیں ایک ’’ہیرو‘‘ کَہ لیں، ’’بنچ مارک‘‘ کَہ لیں یا اُن کے لیے اس قبیل کے دیگر اصطلاحات استعمال میں لے آئیں۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
مجھے یاد ہے کہ میرے ذہن میں کام یابی کی ساری دلیلیں اور استعارے سرجن عارف سے شروع ہوتے اور اُنھی پر ختم ہوتے۔ میٹرک میں سائنس لینا ہوتی، تو اُستاد کہتا: ’’چلو جی! اس کو بھی ڈاکٹر عارف بننا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے بلا شرکتِ غیرے ایک طویل عرصے تک میری عمر کے طلبہ اور نوجوانوں کے ذہنوں پر حکومت کی۔
1939ء میں حاجی سید انور کے گھر پیدا ہونے والی اس شخصیت نے گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 بنڑ سے میڑک کیا۔ ایف ایس سی جہانزیب کالج سے کیا۔ 1965ء سے خیبر میڈیکل کالج سے ’’ایم بی بی ایس‘‘ کیا۔ سنٹرل ہسپتال میں سرجن کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔ 1970ء میں انگلستان گئے۔ 1973ء میں ایف آر سی ایس کیا۔ اُس دور میں ایف آر سی ایس بڑی ڈگری تھی۔ پھر 1976ء میں سوات واپس آئے۔ سنٹرل ہسپتال میں سرجن کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ تدریس کا شوق روزِ اول سے تھا۔ 1977ء میں پشاور گئے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال جوائن کیا۔ ایک وقت میں پورے ایل آر ایچ ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔ اُن کا دور سب یاد کرتے ہیں۔ صوبے کا سب سے بڑا ہسپتال اُن کے دور میں ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ ہسپتال کی خاطر صحت اور تدریسی مدوں میں سخت اور بہترین فیصلے کیے۔ اپنے والد صاحب کے نام پر پشاور ڈبگری گارڈن میں ایک بڑا ہسپتال (سید انور ہسپتال) قائم کیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بزوگر حاجی صاحب
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست
صنوبر اُستاد صاحب
کچھ ناخواندہ ماہرِ تعمیرات عبید اُستاد کے بارے میں
عبدالروف طوطا اور ڈاکٹر نجیب صاحب سے جڑی یادیں
ڈاکٹر عارف صاحب سوات کے لوگوں کے ایک ہی وقت میں معالج بھی ہوتے اور میزبان بھی۔ شروع ہی سے ایک عادت تھی کہ پورا ہفتہ پشاور میں ہوتے اور چھٹی والے دن مینگورہ میں۔ رنگ محلہ مینگورہ میں اپنا مکان اور حجرہ ہے۔ معمول اب بھی وہی ہے۔ ڈھیر سارے این جی اُوز جو صحت کے حوالے سے سرگرم ہیں، کے سربراہ ہیں۔ ایڈز کے خلاف آگاہی اور علاج میں بھرپور کردار ادا کیا۔ خیراتی اداروں کے ساتھ منسلک رہے۔ اِس وقت ’’مرسی چیرٹی ہسپتال‘‘ میں صبح بلامعاوضہ خدمات انجام دیتے ہیں اور شام کو ’’سید انور ہسپتال‘‘ میں اپنی پریکٹس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عارف کو مینگورہ کے تقریباً ہر شخص کا نہ صرف نام یاد ہوتا ہے بل کہ باتیں بھی یاد ہوتی ہیں۔ ملنے جائیں، تو ایسی محبت سے ملتے ہیں کہ پیغام دے رہے ہوں کہ ’’کتنے خوش قسمت ہو، اپنے سوات میں رہتے ہو، اپنے لوگوں سے ملتے ہو، ہم تو غریب الوطن ہیں۔‘‘ مَیں نے ایسا پیغام کئی دفعہ محسوس کیا، گو اُنھوں نے کچھ نہیں کہا۔
خوش طبع اور شفیق انسان ہیں۔ ایسے انسان کو سوات میں یار باش کہتے ہیں۔ یقینا تعلقات میں یکتا اور وفادار ہیں۔ دوستیاں کیں، کافی پھیلی ہوئی دوستیاں۔ (ماشاء اللہ) ان کے دو ہونہار بیٹے ہیں۔ عطاء اللہ عارف پروفیسر آف سرجری لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور حبیب اللہ عارف صوبائی سیکرٹری۔
ہم پرانے مینگروال (یعنی مینگورہ شہر کے باسی) بڑے "Possessive” ہوتے ہیں۔ اپنائیت میں کبھی کبھار تو حد بھی کراس کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب خوش قسمت ہیں کہ ایک بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ اُن کے بچے بھی بہت خوش قسمت ہیں کہ اُن کو ڈاکٹر عارف جیسے لائق، شفیق اور دوستوں کی طرح والد ملے ہیں۔
میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب اتنا بڑا نام ہیں کہ کوئی بیٹا ہزار بار کوشش کرلے، ڈاکٹر عارف جتنا بڑا نہیں ہوسکتا۔ دونوں بیٹے ڈاکٹر صاحب سے زیادہ مینگورہ کے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔ دوستیاں اور رشتہ داریاں بھی ہیں، لیکن ان افسانوی کردار جیسے ڈاکٹر عارف کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا، جنھوں ایک لمبے وقت تک اہلِ مینگورہ کے دلوں پر حکومت کی اور ان کی امیدوں کا مرکز رہے۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالا ڈاکٹر صاحب اور اُن کے خاندان کو ہمیشہ کامیابیوں سے نوازے اور نظرِ بد سے بچائے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب مینگورہ شہر کا فخر نہیں، غرور ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔