زندگی کی تحقیق کے لئے مختلف نظریات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ انسان کی یہ خاصیت ہے کہ زندگی کو خوبصورت اور مکمل کرنے کا جتن کرتا ہے۔ اگر زندگی کو گلستان سے تشبیہ دی جائے، تو اس گلستان میں کھلنے والا ہر پھول الگ مہک اور رنگ رکھتا ہے۔ پھولوں کی رنگینی اور خوشبوئیں، باغِ زندگی کو دوام بخشتی ہیں۔
زندگی کے بعض محققین لفظوں کو تحقیق کا ذریعہ بناتے ہیں۔ کتب ان کے لئے کسی بھی گلستان سے کم نہیں ہوتے۔ کتب کے رنگ برنگے پھولوں اور خوشبوؤں کے سنگ، زندگی کے ڈگر پر چلتے ہیں۔
کتاب کی اچھی ادا یہ ہے کہ جتنا اس کی پروا کی جائے۔ اس سے زیادہ پروا کتاب آپ کی کرے گی۔ کتاب خوابوں کی دنیا آباد کرتی ہے اور پھر اسے تعبیر بھی دیتی ہے۔
فی زمانہ جس کے ہاتھ میں کتاب ہو، اسے پاگل سمجھا جاتا ہے۔ احمد فرازؔ نے ایسے پاگلوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے کہ
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
یہ پاگل اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کتب کو وقت دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کتب سے عشق کی بات تو خیر نہ ہی کی جائے، تو بہتر ہے۔ اس خطا کی وجہ سے اب تو لفظوں کا ایسا سمندر رواں ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کون سے شاعر یا مصنف کا شعر یا نثر پڑھ رہا ہوں۔ تحقیق کرنے والے کم ہیں، جو کسی بھی غلطی کی تصحیح کریں۔ اس غلطی کی وجہ کتب سے دوری ہے۔ کتب کو پروان چڑھانے والے نامور ادارے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ادارہ ’’کاروان بک سنٹر، ملتان‘‘ کھلونوں کی دُکان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ’’فیروز سنز، لاہور‘‘ نیلام ہو چکا ہے۔ اس مرض کی ابتدا کراچی سے ہوئی تھی۔ حالانکہ سب سے اعلیٰ معیار اور نامور لکھاریوں کی کتب کا آغاز کراچی سے ہوا تھا۔ مرض کی دوا نہ کی گئی اور بڑھتا ہوا پورے ملک میں پھیل گیا۔ اب تو کتب خانوں کی جگہ جوتوں اور کپڑوں کی دکانیں آباد ہیں۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’جب جوتے ائیر کنڈیشن دکانوں میں ہوں اور کتب سڑک کنارے فروخت ہو رہے ہوں، تو واقعی اس ملک کے باشندوں کو کتب کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔‘‘

کتب سے عشق کا الگ لطف ہوتا ہے۔ کتب اپنے کتب بینوں کی کمی محسوس کرتی ہیں۔ یہ لفظوں کا مجموعہ انسان کو مزید جینے پر مجبور کرتا ہے۔ کتب سے باتیں ہوتی ہیں، تو زندگی سنور جاتی ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے آنکھوں میں سکون کا احساس بھر جاتا ہے۔ کتب کے ذریعے تخلیق کار اپنے قارئین کو لفظوں سے مسخر کرتے ہیں۔ کتاب آسانیوں کا ذکر کرتی ہے اور زندگی کو سہل بناتی ہے۔
بدقسمتی سے کتب کے پُرلطف گلشن میں جانے کا موقع فراہم ہو رہا ہے، لیکن جا نہیں پاتے۔ یہاں پر کتب خانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف پشاور میں گذشتہ تین سالوں میں سترہ کتب خانے بند ہو چکے ہیں۔ ان کتب خانوں کی جگہ اب مہمان خانے بن چکے ہیں۔
دورِ جدید میں کتاب کہیں دور فضا میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ نصف شب، چائے کا پیالہ اور کتاب کا ساتھ، اس سے بڑی نعمت کیا ہو سکتی ہے۔ کتاب تنہائی کا بہترین رفیق ہوتی ہے۔ کتب کے گلستان سے کوئی بھی بیزار نہیں ہوتا۔ ایک بار اس گلشن میں ضرور قدم رکھئے۔ زندگی سنور جائے گی۔
……………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔