ہیرا منڈی، تصویر کا دوسرا رُخ

Heera Mandi

تحریر: منصور ندیم 
آج کل پڑوسی ملک میں بننے والی نیٹ فلیکس فلم ’’ہیرا منڈی‘‘ کا بڑا تذکرہ ہے۔ مَیں نے یہ فلم دیکھی ہے نہ ابھی تک دیکھنے کا موڈ ہے، مگر اب تک اس فلم پر بانٹا جانے والا ’’گیان‘‘ بہت پڑھا ہے۔ کوئی ان تبصروں میں فسوں نگاری ڈھونڈ رہا ہے، کوئی جادو گری ڈھونڈتا ہے، تو کوئی جمالیات بیان کرتا ہے۔ ہمارے کئی حضرات اسے تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ کوئی اس میں عورت کی ’’امپاورمنٹ‘‘ بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ انتہائی فضول یاوہ گوئی یہ ہے کہ ہیرا منڈی کو فن و ثقافت کا سرمایہ قرار دیا جائے۔ برصغیر کی تاریخ میں ایسے تمام بازار جہاں عورتیں دست یاب ہوتی تھیں، وہاں یہ عورتیں صرف ایک ہی مقصد کے لیے دست یاب ہوتی تھیں…… کہ یہ جسم فروشی کرتی تھیں۔ ایسے مخصوص بازار ماضی میں بادشاہوں، امرا اور شرفا نے اپنی ضرورت کے لیے اپنے محلوں کے قریب ہی بنوائے ہوتے تھے۔ یہ بازار امرا اور شاہوں کے محلوں کے قریب صرف ان کی ہوس ناکی کی ضرورت کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہاں ان کے بستر تک پہنچانے کے لیے عورتیں تیار کی جاتی تھیں۔ اس تیاری کے پراسیس کو اگر آپ تہذیب سمجھتے ہیں، تو آپ کو اس کا حق ہے مگر خدارا، انسانوں کے معاشرے میں اس گھٹیا فعل کے لیے دوسروں کو اسے تہذیب سمجھنے کے لیے مجبور نہ کریں۔
یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ’’امپاورمنٹ‘‘ کے نام پر عورت کو طوائف کی صورت دکھایا جائے۔ ہمارا ہر دوسرا ڈراما اور فلم ’’امپاورمنٹ‘‘ کی صورت میں عورت کو بازار کی نائیکہ دکھا کر اس کی تہذیب اور اسے طاقت ور دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت تعلیم سے، روڈ پر عزت کے ساتھ ریڑھی لگا کر فیکٹری میں کام کرکے اپنے گھر میں ہنر مندی کے ساتھ ہی معاشی حصہ ڈال کر حقیقتاً ’’امپاورمنٹ‘‘ میں آتی ہے نہ کہ اپنے جسم کا سودا کرکے ثقافت و فن کے نام پر۔
یہ ایک مزید المیہ ہے کہ ہم ثقافت و فن جیسی خوب صورت ترین چیزوں کو جسموں کی ہوس جیسے معاملات سے جوڑ کر اسے فخر بنا کر پیش کرتے ہیں۔
مزید حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو مذاہب یا انسانی زندگی کے ارتقائی عمل میں غلامی کو پیشے یا پوری تہذیبی ساخت پر لعن طعن کرتے نہیں تھکتے، وہ خود اس پیشے کو مختلف جہتوں میں معاشرے کے لیے پسندیدہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے ماضی کے ارتقائی عمل میں غلامی ایک بدترین شعبہ تھا، ویسے ہی جسم فروشی بھی ایک بدترین شعبہ ہے، جس میں کوئی عورت کسی بھی صورت معاشرے کے لیے قابلِ قبول ہوتی ہے، نہ پسندیدہ۔ حتی کہ اُن کے لیے آواز اُٹھانے والے اپنی جگہ انسانی حق کے طور پر تو آواز اٹھاتے ہوں گے، لیکن وہ خود اس شعبے کو اپنے یا گھر والوں کے لیے پسند نہیں کرتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ہیرا منڈی کی مختصر تاریخ (کامریڈ امجد علی سحاب) 
ٹرانس جینڈر بِل سوشل میڈیائی سقراط و بقراط (سید فیاض حسین گیلانی)   
خواجہ سرا نہیں، ہمارے رویے مسئلہ ہیں (فضل منان بازدا)  
خواجہ سرا تاریخ کے آئینہ میں (جان جے بٹ)  
ہم جسے تہذیب بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے بازاروں میں ایسی کوئی تہذیب نہیں ملتی۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا قسم کا تشکیل شدہ بیانیہ ہے جسے ہم نے قبول کیا ہے کہ نواب اپنی اولادوں کو ان بازاروں میں تربیت کے لیے بھیجتے تھے۔ ان بازاروں میں عورتوں کی تربیت بڑے گھروں کے اعتبار سے ضرور کی جاتی تھی، کیوں کہ وہ اُن بڑے گھرانوں میں جا کر اُن کی عیاشی کا مصرف بنیں، تو اُن کے انداز اور ضرورت کے مطابق خود کو ڈھال لیں، نہ کہ ایسے بازار کوئی اخلاقی تربیت گاہ تھے۔ یہ بازار فقط انسانی ہوس ناکی کی ضرورت کے لیے اُن امرا کے لیے اُن کے بہتر انداز میں پیش کی جانے والی ضرورت کا تقاضا تھے۔
برصغیر میں معروف ترین ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ مرزا رسوا کا 1894ء میں لکھا ہوا وہ لازوال نفسیاتی ناول ہے، جسے اُردو کا پہلا کامیاب ناول مانا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ناول تنقید کی نئی کسوٹیوں پر پورا اور کھرا اُترا ہے۔ علی عباس حسینی نے ناول کے تاریخ و تنقید میں امراؤ جان ادا کا موضوع طوائف کو قرار دیتے ہوئے اسے ’’ایک رنڈی کی کہانی اُس کی زبانی‘‘ قرار دیا ہے۔
ناول امراؤ جان ادا کی کہانی تکنیکی بیانیہ ہے، جس میں کہانی فلیش بیک میں چلتی ہے۔ یہ ناول ایک بیانیہ اس لیے ہے کہ اس میں امراؤ جان اپنے بڑھاپے میں ناول نگار کے سامنے آتی ہے اور حال احوال دریافت کیے جانے پر اپنی آپ بیتی سنانی شروع کرتی ہے۔ بیچ بیچ میں مرزا رسوا خود ہیروئن کو کہیں کہیں ٹوکتے ہیں اور استفادہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
ناول امراؤ جان ادا کا پلاٹ دوہرا ہے۔ ایک کہانی عمیرن کی ہے، جسے طوائف خانم اپنے کوٹھے کے لیے خرید لیتی ہے اور دوسری کہانی رام دُلاری کی ہے جسے نواب زادے کی ماں خرید لیتی ہے، یعنی ایک کو کوٹھی ملتی ہے اور دوسری کو کوٹھا۔ حالاں کہ دونوں کی ابتدائی زندگی ایک ساتھ شروع ہوتی ہے۔ کیوں کہ دونوں اِغوا کرکے لائی گئی ہوتی ہیں۔ مرزا رُسوا خود لکھتے ہیں کہ اُن کے ناول میں کامیڈی ہوتی ہے، نہ ٹریجیڈی اور نہ وصل و ہجر کے قصے…… بلکہ اُن کو موجودہ دور کی تاریخ سمجھنا چاہیے۔
یہ دُرست ہے کہ تاریخ کے سب سے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک پیشہ جسم فروشی ہے، جس کی ساخت مختلف جہتوں میں بدلتی ہے۔ بہ ظاہر معاشروں میں اسے ہمیشہ گھٹیا ہی سمجھا گیا۔ اس عمل یا پیشے کو اپنے اپنے ادوار میں صاحبِ حیثیت یا شاہوں نے اپنی ذات کے لیے قابلِ قبول بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پھر چاہے وہ کوئی عہد رہا ہو، مگر طوائف ہمیشہ یونان کے عہد سے لے کر روم تک ہمیشہ عام معاشرے کی عورت کے مقابل کم درجہ ہی رہی ہے۔ جسے بعد میں باقاعدہ ادارتی طور پر سب سے پہلے اور سب سے منظم اداراتی طور پر ترک سلاطین نے اپنے محلوں میں قائم کیا، جس کا پورا نظام تھا۔ وقت کی ضرورت کے ساتھ شیخ الاسلام بھی ان کے لیے فتوا دیتے تھے۔ وہاں غیر مسلم لڑکیاں لائی جاتی تھیں۔ وہاں پہنچنے والی لڑکیوں کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی۔ اُن کے جسم کی زیبایش و آرایش کی جاتی تھی۔ اُن کی خرید و فروخت اور محل کے حرم تک پہنچانے کا پورا ایک باقاعدہ حکومتی نظام موجود تھا…… یعنی اگر کسی کو برا لگتا ہے، تو لگے…… مگر مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ ترک سلاطین نے اپنے محلوں کو خود بہ خود ایک چکلا بنا دیا تھا۔ اُس وقت کی سیاسی ضرورت بھی ایسی تھی کہ ولی عہد تک ہمیشہ بغیر نکاح ہی کے پیدا ہوتے رہے۔ قریب یہی معاملہ بر صغیر کے بادشاہوں کا بھی رہا۔ اُنھوں نے بھی ایسے بازار ہمیشہ اپنے محل کے قریب ہی بسائے اور امرا و شرفا کے لیے وہاں تک رسائی کی خاطر اسے ایک فن و ثقافت یاتہذیب کا نام دیا گیا۔ ورنہ جسم فروشی فقط جسم فروشی ہی رہتی ہے…… تہذیب بنتی ہے، نہ کوئی فن و ثقافت۔ وہاں ہمیشہ نئی لڑکیاں اِغوا کر کے ہی لائی جاتی رہی ہیں۔ پھر جب وہ بازار خود بہ خود ایک ادارہ بن گیا، تو وہاں پر بھی بیٹیاں پیدا ہونے لگیں، جو اس منڈی کا خام مال بننے لگیں۔ ورنہ سوچیں کہ کوئی بھی عورت صرف پیسا کمانے کی خاطر ہر رات طویل وقت تک غیر دھوئے ہوئے اعضا نہیں چاہتی۔ یہ معاملہ عام طور پر اکثر کسی بھی عورت کے لیے آخری آپشن کے طور پر رہ جاتا ہے۔
پھر بھی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ اسے ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے نام پر ایک رومانوی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو حقیقتاً حقوقِ نسواں کے ضمن میں ایک بڑی زیادتی ہے، جس سے اس امر پر درست آواز بننے والوں کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کے جسم فروشی کے معاملات کو ایک جنسی کام یا انڈسٹری کہا جائے۔ یہ بہ طورِ انسان ایک عورت کے جینے کے لیے ہر گز گلیمرائز زندگی نہیں۔ ورنہ عورتیں اکثر محنت سے پیسا کمانے کے لیے اپنی جانیں لگا دیتی ہیں۔ ایک عورت پیسوں کے لیے کسی بھی جسم کے نیچے لیٹنے کے لیے اُس کے جسم کی بُو اور حرکات کو اپنی من مرضی کے بغیر کسی صورت قبول نہیں کرتی۔ یہ ایک جبر ہے، جسے آپ گلیمر بنا کر معاشرے کو پیش کرتے ہیں۔
میری فیس بک وال پر اسی تحریر کے ساتھ ایک تصویر دی گئی ہے، جس میں ایک 8 سالہ بچی نظر آرہی ہے، جس کا نام ماہی ہے۔ مذکورہ تصویر فروری 2022ء میں وائرل ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی فوٹو گرافر نے ’’ہیرا منڈی‘‘ (لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا) میں اُس بچی کو دیکھ کر تصویر کھینچی تھی، جسے بعد میں کچھ معروف اخبار نویسوں نے شیئر بھی کیا تھا۔ وہ بچی اُس بازار میں رہتی ہے۔ چرس سے بھرے سگریٹ بنانا جانتی ہے اور اسے آزما بھی چکی ہے۔ کیوں کہ اسے وہ ماحول حالات کے جبر نے دیا ہے۔ جیسے آج ہمارے لوگ اس شعبے کو ثقافت یا ’’ویمن امپاورمنٹ‘‘ بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اُنھیں معلوم ہوگا کہ بچی ایک ڈانسنگ گرل اور جسم فروش ہی بنے گی۔ حالاں کہ اُس بچی کو دیکھ کر سوچیں، کیا اس کی عمر تتلیاں پکڑنے کی نہیں، باغوں میں جھولوں پر بیٹھنے کی نہیں، کھلونے سے کھیلنے اور کتابیں کی نہیں……؟
قارئین! مَیں یہ سوال ریاست سے اور آپ سے بہ طورِ معاشرے کے ایک فرد کے پوچھ رہا ہوں کہ وہ معصوم بچی ہمیں اپنی بیٹیوں جیسی کیوں نہیں لگتی؟ اُس تصویر میں اُس بچی کی معصومیت اُوجِ کمال پر ہے۔ کیا اُس کے معصوم چہرے میں ہمیں اپنی بیٹیاں نظر آسکتی ہیں، یا پھر ہم اسے تقدیر کا فیصلہ مان لیں، یا اُس کے اُس بازار میں رہنے کے عمل کو عورت کی ’’امپاورمنٹ‘‘ مان لیں…… چلیں مان لیں کہ دنیا میں کوئی بھی بالغ عورت حالات کی مجبوری یا ذاتی فیصلے سے جسم فروش بن جاتی ہے، یہ اُس کا ذاتی فیصلہ ہے، جو وہ بہ حیثیت عاقل بالغ ہوکر اپنے لیے کرتی ہے، مگر مذکورہ بچی تو اُن بازاروں میں پیدا ہوکر اپنی معصومیت کے دنوں ہی سے اُن بازاروں کا ایندھن بن چکی ہے۔
کیا یہ ہماری معاشرتی پستی کی انتہا ہے یا ہماری نام نہاد ’’امپاورمنٹ‘‘، ’’ثقافت‘‘، ’’فن‘‘، ’’فسوں نگاری‘‘ اور ’’جمالیات‘‘ ہیں؟
اپنی بیٹی کو ذہن میں رکھ کر اُس تصویر کو دیکھیں اور سوچیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے