پشتو فلموں میں فحاشی و عریانی کیسے در آئی؟

Blogger Sajjad Ahmad

مشہور قول ہے کہ اگر برائی نہ ہوتی، تو اچھائی کا اندازہ کیسے ہوتا……!
اچھائی اور برائی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس طرح پشتو فلموں میں بھی وقت کے ساتھ ایسے لوگ آئے، جن کا مقصد پشتون تہذیب و ثقافت کی فروغ کی بجائے مال بنانا تھا۔ پیسے کے لالچ میں وہ اس قدر اندھے ہوگئے کہ اُنھوں نے فلموں میں پشتونوں کو بدنام کرنے کی ٹھان لی۔ پشتونوں کو اس قدر بدنام کیا گیا کہ لاہور میں پشتو فلم کے نام وَر اداکار اور دیگر پشتون سڑکوں پرنکل کر آئے اور مذکورہ فلموں کے بند ہونے کی خاطر احتجاج کیا۔ اخبار اور رسالوں میں مذکورہ فلموں کی بندش کے خلاف رپورٹیں اور خبریں شائع ہوئیں…… مگر یہ بے ہودگی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی۔ ایسی فلمیں بنانے والے اتنے بااثر ہیں کہ وہ اپنی فلموں کو سنسر بورڈ کو پیش کرتے وقت نازیبا سین ہٹا دیتے ہیں اور سرٹیفکیٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ پھر جب سنیما پر مذکورہ فلمیں چلتی ہیں، تو اُن میں وہ تمام قابلِ اعتراض سین دوبارہ شامل کیے گئے ہوتے ہیں۔
سجاد احمد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sajjad-ahmad/
ایک دفعہ پشاور کے’’ ناولٹ سنیما‘‘ میں ایک ایسی ہی فلم لگی تھی، جس میں’’سنیتا خان‘‘ نامی ایک خاتون کا کردار شامل تھا۔ فلم میں اُس کے ڈھیر سارے بے ہودہ سین اور رقص شامل تھا۔ اُس فلم کے خلاف ایک دوسرے سنیما کے مالک نے سنسر بورڈ کو شکایت کردی، مگر مذکورہ سنیما کے مالک اتنے بااثر تھے کہ جب سنیما پر چھاپا پڑگیا، تو اُس وقت سنیما پر فلم کی وہ کاپی چل رہی تھی، جو سنسر بورڈ سے پاس شدہ تھی۔
سنیما والوں کا طریقۂ واردات کچھ یوں ہوتا کہ فلم جس ہفتے سنیما پرلگتی اور فلم دیکھنے کا رش ہوتا، تو سنسر بورڈ سے پاس شدہ کاپی چلتی…… جیسے ہی رَش کم ہوتا، تو پھر وہی بے ہودہ سین اور رقص شامل کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کی جاتی۔
اُس وقت کی انتظامیہ ایسی بے ہودہ فلموں پر کیوں چپ تھی؟ دراصل سنیما مالکان کا بااثر ہونا ہی اصل وجہ تھی۔ ایسے سنیما گھروں کے سامنے امن و امان قائم رکھنے کے لیے پولیس کی گاڑی موجود ہوتی۔
دوسری طرف وہ فلمیں جو ذکر شدہ بے ہودگی سے صاف ہوتیں، اُن کو دیکھنے کوئی نہیں آتا تھا۔ یوں بے ہودہ فلموں کا سلسلہ چل نکلا۔
اس وقت کی فلم انڈسٹری کا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر جو ’’اکوڑی‘‘ کے رہنے والا تھا، اُس کے ساتھ میری ملاقات ہوئی۔ باتوں کے دوران میں، مَیں نے اُسے بتایا کہ پشتو فلموں کا بیڑا تو آپ لوگوں نے غرق کردیا ہے۔ اب نام بھی ایسے بگڑے ہوئے رکھ رہے ہو۔ واضح رہے کہ اُس وقت پشتو کی ایک فلم ’’دَ سپی لکی‘‘ (کتے کی دُم) کے نام سے لگی تھی، جس پر مَیں نے طنزیہ طور پر کہا کہ مَیں اس سے اچھا نام تجویز کرتا ہوں، جس پر بھی ایک عدد فلم ہونی چاہیے۔ میرا طنزاً تجویز کردہ نام تھا: ’’دَ کرخو حرامی۔‘‘ یعنی ’’بہت بڑا شیطان‘‘۔
ابھی اس ملاقات کو دو ہی ماہ گزرے ہوں گے کہ ’’ ناز سنیما‘‘ پر اس نام سے فلم لگی دیکھنے کو ملی۔ فلم کیا تھی، بے ہودہ سین ڈھونڈ ڈھانڈ کر گانے بنائے گئے تھے، جس میں بارش میں رقاصہ محوِ رقص دکھائی گئی تھی۔
کچھ عرصہ بعد مذکورہ اسٹنٹ صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوگئی۔ مَیں نے پوچھا: ’’یار فضل ربی! یہ کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواباً بتایا: ’’جلال خٹک نے ایک فلم بنائی، جس پر اُس نے اپنا کُل اثاثہ خرچ کردیا، مگر وہ بُری طرح فلاپ ہوگئی اور اُس کا سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ مَیں نے ایک دن اُن کے سامنے تمھارا تجویز کردہ نام ان الفاظ کے ساتھ پیش کیا کہ ’ایک زبرست نام لایا ہوں۔‘ نام جیسے ہی اُنھوں نے سنا، تو اُنھیں بے حد پسند آیا اور اپنی آنے والی فلم کا یہی ’دَ کرخو حرامی‘ نام رکھ دیا۔ یوں یہ فلم پنجابی، بلوچی اور سندھی میں دیگر ناموں کے ساتھ بنی اور سنیما گھروں پر خوب چلی۔‘‘
مذکورہ اسٹنٹ ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ خٹک صاحب کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اپنا تاوان ہر قیمت پر پورا کرنا ہے۔‘‘ یوں فلم چلی اور ان کا نقصان پورا ہوگیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
بدر منیر ایک عہد ساز اداکار 
ریاستی دور کا سوات سنیما 
پشتو ڈراموں اور ٹیلی فلموں کا المیہ  
پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی کی وجوہات  
خیال محمد، ایک عام گلوکار سے شہنشاہِ غزل تک کا سفر  
لنڈے کے امپورٹڈ پختون 
اس کے بعد پنجابی فلموں کے ناکام ڈائریکٹروں نے پشتو فلم بنانا شروع کردیے، جس سے فلموں پر پابندی لگ گئی۔ اس طرح بے ہودہ فلموں کو دیکھنے کون جاتا۔ سارے آوارہ، اَن پڑھ اور بدکردار قسم کے لوگ ہی رہ گئے، جو سنیما گھروں کو جایا کرتے تھے۔ یوں شریف اور پڑھے لکھے لوگوں نے سنیما دیکھنا چھوڑ دیا…… مگر فلمیں بنانے والے اَن پڑھ جاہل لوگوں کی اس سے بھی جیب نہیں بھری، یوں اُنھوں نے دوسری زبانوں کی گندی فلموں کو بھی پشتو زبان میں ڈب کرنا شروع کردیا۔ ان کے گندے نام اور تصاویر کے پوسٹر بناکر شہر بھر کی دیواروں پر لگی ہوتیں۔ مذکورہ پوسٹروں پر تحریر ہوتا: ’’آپ بھی آئیں اور دوستوں کو بھی لائیں۔‘‘
اُن پوسٹروں پر فلموں کے نام کچھ یوں ہوتے: ’’ڑومبی شپہ ‘‘، ’’دَ نیمی شپی اشنا‘‘، ’’تنکئی زوانی‘‘، ’’د زوانی جوش‘‘، ’’واخلہ مزے‘‘ وعلیٰ ہذا القیاس۔
ان فلموں میں پنجابی فلموں کی پرانی رقاصائیں بے ہودہ اور بڑی حد تک برہنہ رقص کرتی دکھائی جاتیں، جس نے پشتو فلموں کے ادا کاروں، فلم سازوں اور ڈائریکٹروں کو تباہ کردیا۔ یوں شریف لوگوں نے سنیما گھروں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا۔ نتیجتاً پشتو فلموں کی تعداد کم ہوتی گئی، یہاں تک کہ ختم ہوکر رہ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنیما گھر ویران ہوگئے اور آخر میں بند ہوتے گئے۔ بعض کو ختم کرکے مارکیٹ بنایا گیا اور جو رہ گئے ہیں،وہ بند ہونے جارہے ہیں۔
(پشتو کتاب ’’پشتو فلمونہ، تاریخ، تحقیق او تنقید‘‘ از حاجی محمد اسلم، مطبوعہ ’’اعرف پبلشرز، پشاور‘‘، سنہ اشاعت 2020ء، صفحہ 64 تا 66 کا اُردو ترجمہ)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے