انسان کو کبھی کبھی روٹین سے ہٹ کر روزمرہ کی سیاست کو بھول کر کسی اور بھی معاشرتی معاملہ پر بات کرنا چاہیے۔ سو آج ذرا مختلف موضوع اپنے قارئین کے ساتھ ایک نشست ہوجائے۔
اس موضوع کی وجہ چند دن پہلے میری ایک گفتگو ہے جو میری اور میرے نوجوان بھتیجے کے درمیان ہوئی۔ مَیں اکثر اپنے خاندان کے اور دوستوں کے بچوں سے بہت کھل کر اور صاف گوئی سے بات چیت کرتا ہوں۔ کتنی دفعہ میری ذوجہ سمیت لوگ مجھے ٹوکتے بھی ہیں کہ مجھے بچوں سے بحث نہیں کرنی چاہیے…… لیکن چوں کہ میرے والد صاحب بھی گھر میں ہم سے ہر موضوع پر گفتگو کرتے تھے…… سو اس وجہ سے میں اس کو مثبت لیتا ہوں، منفی نہیں۔
بہرحال واقعہ یوں ہوا کہ چند دن قبل میرا بھتیجا اعتزاز گیلانی ہمارے گھر آیا اور مجھ سے آتے ہی سوال کیا کہ آپ بتائیں گے کہ ماضی کے فلمی اداکاروں میں سے شاہد بہتر تھا یا مرحوم وحید مراد……؟ مجھے حیرت ہوئی۔ کیوں کہ میرا بھتیجا کچھ عرصہ سے کافی مذہبی بن چکا ہے اور جب سے وہ شاید ’’براکس ایکس‘‘ نامی تنظیم جو کہ معروف مذہبی و دفاعی تجزیہ نگار محترم زاہد حامد چلاتے ہیں…… سے وابستہ ہوا ہے۔ مجھے اس کے کچھ خیالات میں بہت انتہا پسندی بھی نظر آتی ہے۔ دوسرا وہ بات کرتا، تو چاہیے تھا کہ اب کے ادکاروں پر کرتا۔ شاہد اور وحید مراد تو ہمارا بچپن تھے۔
خیر، میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ چند عرصہ قبل اداکار شاہد نے اپنے بیٹے معروف اینکر کامران شاہد کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’وحید مراد جو شروع میں مجھ جونیئر سے ہاتھ تک نہ ملاتے تھے، جب زوال کی جانب تھے…… تو انہوں نے مجھے کہا کہ میرا کیا بنے گا؟ سو مَیں نے ان کے لیے ایک فلم شروع کر دی کہ جس کا مکمل اختیار ان کو دے دیا…… لیکن یہ فلم بوجوہ نہ بن سکی۔‘‘ اس پر وحید مراد کے فینز نے سوشل میڈیا پر شاہد کو کافی لعن طعن کی کہ وحید مراد معروف پرڈیوسر نثار مراد کا بیٹا تھا اور وقت کا چاکلیٹی ہیرو تھا۔ تم کیا ہو اسکے سامنے…… وغیرہ وغیرہ، جس پر شاہد صاحب کو وضاحت دینا پڑی کہ ’’یہ بات غلط کوٹ کی جا رہی ہے۔ مَیں نے یوں نہیں…… یوں بات کی تھی۔ میرا مطلب یہ نہیں…… وہ تھا۔‘‘
بہرحال مَیں نے اپنے بھتیجے کو بتایا کہ بے شک شاہد وقت کا مقبول ترین ہیرو تھا اور شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے ہٹ ہیرو تھا…… لیکن وحید مراد کی مقبولیت شاہد سے بہت زیادہ تھی۔
اسی گفتگو کے بعد ایک دم میں سکول کے دور میں پہنچ گیا۔ تب رنگین سینما کا اجرا نیا نیا تھا اور سینما شاید عام آدمی کی واحد تفریح تھا۔ سینما پر ٹکٹوں کی بلیک ہوتی تھی۔ لمبی لمبی قطاریں لگتی تھیں۔ ریڈیو پر فلموں کے پروگرام چلتے تھے۔ ٹی وی زیادہ عوام تک نہیں آیا تھا۔ محمد علی، وحید مراد، لالہ سدھیر، ندیم، شاہد، غلام محی الدین، زیبا، شبنم، مسرت شاہین، آسیہ، دیبا، بابرہ شریف، سنگیتا، کویتا اور ممتاز کے ساتھ ادیب، آغا طالش، منور ظریف، رنگیلا، علی اعجاز وغیرہ ہر ایک جگہ معروف تھے۔ پھر سلطان راہی، مصطفی قریشی، بدرمنیر، انجمن اور مسرت شاہین وغیرہ علاقائی فلموں کی پہنچان تھے۔
دوسری طرف مہدی حسن، ایس پی جان، اخلاق احمدا ور احمد رشدی سے استاد نصرت فتح علی خان اور نورجہاں، رونا لیلیٰ، ناہید اختر، مہناز وغیرہ معروف شہرت رکھنے والی گلوکارائیں تھیں۔ فلم انڈسٹری نہ صرف عوام کو سستی و مناسب تفریح دیتی تھی بلکہ اس سے وابستہ ہزاروں لوگوں کے لیے یہ روزگار کا ذریعہ تھی۔
مجھے یاد ہے تب ہم راولپنڈی کے ایک سرکاری سینما پی اے ایف کہ جہاں ٹکٹ سستا تھا، لیکن مین سینما سے اُتری فلم چلتی تھی۔ اکثر سکول سے چھپ کر اس سینما پر فلم بینی کا شوق پورا کرتے تھے۔ لیکن تب کے کچھ بڑوں میں فلم بینی ایک غلط کام اور فحشی کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ سو ہم اس مکو ممکنہ طور پر خفیہ رکھتے تھے۔ پھر فلم دیکھ کر اپنے کزنز اور دوستوں کو اس کی کہانی، مکالمے اور گانے بہت فخر سے بتایا کرتے تھے۔
اُس وقت ہماری فلم انڈسٹری کسی طور پر باقی ماندہ دنیا خاص کر بھارت سے کم نہ تھی۔ ہمارے اداکار وہاں پہچانے جاتے تھے بلکہ دلیپ کمار کے بعد اگر کسی کے بالوں کا انداز برصغیر میں مقبول ہوا…… تو وہ پاکستان کے وحید مراد تھے۔ مگر دنیا میں یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری کہ جو پرفارمنگ آرٹ کا اہم جز ہے اور بے شمار زرِمبادلہ کمانے کا موثر طریقہ بھی ہے…… اور ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ترقی کرتی گئی۔ نئے نئے تجربات ہوئے۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا…… لیکن ہمارے ملک میں فلم انڈسٹری مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اب تک صحیح معنوں میں بحال نہ ہوئی۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی؟
حقیقت یہ ہے کہ ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں جہاں دوسرے ادارے تباہ ہوئے، وہاں فلم انڈسٹری بھی تباہ کر دی گئی۔ کیوں کہ ضیاء الحق اپنے دور کے مقبول ترین راہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر آئے تھے۔ اس وجہ سے ان کو ایک ایسا نعرہ مطلوب تھا جو کہ عوام میں ایک کشش رکھتا۔ اس لیے پہلے ایوب خان ’’قومی ترقی‘‘ کے نعرے کو اپنی آمریت واسطے خوب استعمال کرچکا تھا اور ظاہر ہے اب اس نعرے میں عوامی بد اعتمادی واضح تھی۔ سو ضیاء الحق نے ’’اسلام‘‘ کے مقدس نام کو بے تحاشا استعمال کیا اور ملک میں جہاں اور جگہ خود ساختہ اسلام کا اجرا کیا…… وہاں فلم انڈسٹری میں بھی اسلام کو لانے کی بھونڈی اور منافقانہ کوشش شروع ہوگئی۔ صرف یہ نہیں کہ سنسر بورڈ کو زیادہ بااختیار اور سخت کیا گیا…… بلکہ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ مکالموں، لوکیشن اور کہانی تک کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا گیا۔
اس حوالہ سے ہمارے ایک معروف ہدایت کار نے بہت دلچسپ بات ایک دفعہ سنائی کہ ان کی ایک فلم میں ایک طوائف کے رول واسطے لباس کے چناؤ کی تجویز آئی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ محترمین یہ طوائف کا کردار ہے اور اب ہم ایک طوائف کو تو برقع پوش نہیں بنا سکتے…… تو ہمیں کہا گیا کہ اُوکے لیکن طوائف کی ماں کہ جو عملاً اس کی نائیکہ کا کردار ادا کر رہی تھی…… اس کے سرسے چادر نہیں اترنی چاہیے۔ اب جب ہمارے فلم سازوں واسطے اُردو فلموں کے پلاٹ محدود ہوگئے۔ کہانیوں کی کمی ہوگئی، تو وہ پنجابی فلموں کی طرف متوجہ ہوگئے۔
اکثر پنجابی فلموں کی کہانی کا ہیرو ایک لٹھ بردار گنڈاسا والا ہیرو ہوتا تھا۔ نہ کہانی ہوتی، نہ میوزک…… ایسی فلمیں بننا شروع ہوگئیں اور عوام میں نسبتاً ایک نچلا طبقہ جو آمریت کے خوف میں نفسیاتی طور پنپ رہا تھا، ان میں اس کی قبولیت شروع ہوگئی۔ کیوں کہ ایک مظلوم، اَن پڑھ انسان جب ایک گنڈاسا بردار ہیرو حتی کہ ’’مولا جٹ‘‘ سے ولن تک بھی اعلا سرکاری افسران خصوصاً پولیس جو کہ عوامی سطح پر عوام کے لیے حکومت کا نمائندہ سمجھی جاتی ہے…… یا تھوڑا بہت پٹوار خانہ کے رعب و دبدبہ کو ایک گنڈاسا بردار اپنے قدموں میں کچل دیتا ہے، تو ان کو اچھا لگتا۔ یوں یہ خاص ’’گنڈاسا کلچر‘‘ آیا۔
دوسری طرف وی سی آر آگیا۔ اب نسبتاً تعلیمی کلاس وی سی آر پر انڈین فلموں سے لطف اندوز ہوتی اور سنیما میں ’’مولا جٹ‘‘ اور ’’نوری نت‘‘ چلتے۔
دوسری مقامی زبانوں کی فلمیں بالکل ختم ہوگئیں۔ وگرنہ 70ء کے عشرے کے آخر تک پشتو فلموں کی بہت مناسب مارکیٹ تھی۔ اس کے علاوہ سندھی فلمیں حتی کہ سرائیکی اور گجراتی بھی بنتی تھیں…… لیکن پھر سب ختم ہوگیا۔ چوں کہ یہ ’’گنڈاسا کلچر‘‘ ظاہر ہے ہمیشہ کے لیے تو قائم نہیں ہو سکتا تھا…… سو ایک وقت آیا…… خصوصاً سلطان راہی کی موت کے بعد دھڑام سے گر گیا…… اور رہی سہی انڈسٹری بھی ختم ہوگئی۔ بڑے بڑے فلمی سٹوڈیو ویران ہوگئے۔ بہت نامور فنکار جیسے ندیم، بابرہ شریف اور سنگیتا ٹی وی پر آنا شروع ہوگئے۔ سنیما ہال ویران ہوگئے اور پھر وہ وقت آیا جب بے شمار سینما ہال کسی شاپنگ سینٹر، کسی شادی ہال یا ہوٹل میں تبدیل ہوگئے۔
قارئین، مَیں اگر صرف راولپنڈی اسلام کی بات کروں، تو ’’نیف ڈک‘‘، ’’میلوڈی‘‘، ’’گلستان‘‘، ’’شبستان‘‘، ’’کہکشاں‘‘، ’’اوڈین پلازہ‘‘، ’’نشاط‘‘، ’’نادر‘‘، ’’ناز‘‘، ’’روز‘‘، ’’سنگیت‘‘، ’’کیپٹل‘‘، ’’ناولٹی‘‘ اور ’’خورشید‘‘ نامی اے کلاس سینما ختم ہوگئے، ’’ریالٹو سٹیج ہال‘‘ بن گیا۔ اِس وقت میرا خیال ہے کہ ’’موتی محل‘‘ کے علاوہ یہاں کوئی سینما موجود ہی نہیں۔ حتی کہ ’’سینی پلیکس‘‘ یا بحریہ میں سنیماا کی سہولت موجود ہے۔جس کی وجہ سے بے شمار لوگ صرف فنکار نہیں بلکہ زیادہ چھوٹے طبقہ کے لوگ جیسے ٹیکنیشن، کیمرہ مین، سپاٹ بوائے، لایٹ مین، الیکٹریشن، پلمبر، ڈرائیور، چوکیدار وغیرہ بے روزگار ہوگئے۔
سو حکومت سے اپیل ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو بلا کر اس واسطے مناسب اقدامات کرے، یا ہم جیسے لوگوں سے ہی مشورہ لے لیں سرکارِ محترم……!
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔