شعبۂ انصاف میں خواتین کی مایوس کن تعداد

Blogger Advocate Muhammad Riaz

’’لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ ایک وفاقی حکومت کا ادارہ ہے، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کرتے ہیں اور اس کے دیگر ممبران میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس، ہائیکورٹس کے چیف جسٹس، اٹارنی جنرل، سیکرٹری قانون، انصاف اور انسانی حقوق اور خواتین کے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن اور چار ایسے ممبران شامل ہوتے ہیں، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کے حامل افراد ہوں۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
یہ ادارہ قانون و انصاف کے حوالے سے مختلف رپورٹس مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو انصاف کی حکم رانی کی خاطر قانون سازی کے لیے تجاویز بھی فراہم کرتا ہے۔ حال ہی میں ’’لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ نے شعبۂ انصاف میں خواتین کے کردار کے حوالے سے اک رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں پاکستان کے انصاف کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے اعدادوشمارشائع کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں پاکستانی عدالتوں میں کام کرنے والی خواتین ججوں، وکلا، پراسیکوشن افسران اوردیگر خواتین اہل کاروں کی تعداد بارے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 3142جج اور جوڈیشل افسران کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 2570 مرد اور 572 خواتین ہیں…… یعنی کُل تعداد میں خواتین افسران کا حصہ 18 فی صد ہے۔
سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور پانچوں ہائیکورٹس میں مرد ججوں کی تعداد 119 جب کہ خواتین ججوں کی تعداد صرف 7 ہے، یعنی اعلا عدلیہ میں خواتین ججوں کا حصہ پانچ اعشاریہ پانچ فی صد ہے۔
ماتحت عدلیہ یعنی ضلعی عدالتوں کی بات کی جائے، تو پاکستان کی تمام ضلعی عدالتوں میں جوڈیشل افسران ججوں کی تعداد 3 ہزار 106 ہے، جس میں مرد ججوں کی تعداد 2 ہزار 451 ہے، جب کہ خواتین صرف 565 ہیں…… یعنی ضلعی عدالتوں میں جوڈیشل افسران خواتین کاحصہ صرف 19 فی صد ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
عدالتوں میں 22 لاکھ زاید زیرِ التوا مقدمات  
پاکستانی عدالتی نظام کا تاریخی پس منظر  
ہمارا عدالتی نظام اور نئے چیف جسٹس  
ریاستِ سوات کے سول اور عدالتی نظام کے چند پہلو  
ہماری عدالتیں، مراعات اور زیرِ التوا مقدمات 
رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 2210 پراسیکوشن افسران کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے 1869 مرد اور 341 افسران خواتین ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پراسیکوشن افسران کے کل نیٹ ورک کی تعداد کا صرف 15 فی صد خواتین ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تمام صوبائی بار کونسل میں رجسٹرڈ شدہ وکلا کی تعداد 2 لاکھ 38 ہزار 79 ہے، جس میں مرد وکلا کی تعدادایک لاکھ 98 ہزار 100 ہے، جب کہ خواتین وکلا کی تعداد39 ہزار 79 ہے، یعنی پاکستان بھر میں وکلا کی تعداد کا 17 فی صد حصہ خواتین وکلا پر مشتمل ہے۔
رپورٹ کے اعداد و شمار سے ہوش رُبا انکشاف ہوتا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت، پشاور ہائیکورٹ، بلوچستان ہائیکورٹ میں ایک بھی خاتون جج نہیں، جب کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ دونوں جگہ صرف ایک ایک خاتون جج موجود ہیں، جب کہ سندھ ہائیکورٹ میں خواتین ججوں کی تعداد صرف تین ہے۔
اسی طرح ضلعی عدالتوں کی بات کی جائے، تو صوبہ پنجاب کے 36 اضلاع اور صوبہ بلوچستان کے 9 اضلاع میں ایک بھی خاتون ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج موجود نہیں، جو ضلع کی سب سے بڑی عدالت کی سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتی ہوں۔
اسی طرح سندھ کے 20 اضلاع اور خیبر پختونخوا کے 24 اضلاع میں صرف دو دو خواتین ضلع کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ چاروں صوبوں میں موجود ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عہدوں کی حامل 22 خواتین ضلعی عدالتوں کی بجائے سپیشل عدالتوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق خواتین پاکستان کی کل آبادی کا 50 فی صد ہیں، مگر زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح شعبۂ عدل و انصاف میں بھی خواتین کی تعداد حوصلہ افزا نہیں۔ جیسے طبی معاملات میں پاکستانی خواتین کو مرد ڈاکٹر کے سامنے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے اور اپنی بیماری کے متعلق بات کرتے ہوئے شرماتی ہیں، اسی طرز پر عائلی یعنی فیملی معاملات میں خواتین وکلا کی کم تعداد کی وجہ سے کورٹ کچہری میں خواتین کو مرد وکلا سے واسطہ پڑتا ہے اور پاکستانی اسلامی معاشرہ میں یہ فطرتی بات ہے کہ خاتون سائل اپنے نجی معاملات کا اظہار کسی مرد سے کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کاشکار ہوگی۔
بہ ہرحال سیاست ہو یا پھر دفاع، طب کا شعبہ ہو یا کھیل کا میدان، یقینی طور پر پاکستانی خواتین نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بدولت اپنے آپ کو منوایا ہے۔ انصاف کے شعبہ کی بات کی جائے، تو ہمارے سامنے ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر جیسی جرات مند خاتون اپنی مثال آپ ہیں۔ آج کی خاتون سپریم کورٹ کی جج اور پاک فوج میں جرنیل کے عہدے پر براجمان دِکھائی دیتی ہے۔ سیاست کا شعبہ ہو، تو تحریکِ پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا پھر بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسی عظیم خواتین کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
آج کے پاکستان میں خواتین وزارتِ عظمی اور وزارتِ اعلا جیسے بڑے انتظامی عہدوں پر براجمان دِکھائی دیتی ہیں۔ ’’لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان‘‘ کی طرف سے جاری شدہ رپورٹ جہاں پاکستان میں انصاف کے شعبے میں خواتین کی نمایاں شراکت پر روشنی ڈالتی ہے، وہیں پر اس بات کا اظہار بھی کرتی ہے کہ شعبۂ انصاف میں خواتین کی نمایندگی پاکستان کی مجموعی آبادی میں اُن کے حصے کے متناسب نہیں۔
لہٰذا، یہ سفارش کی جاتی ہے کہ پارلیمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈر انصاف کے شعبے میں مزید خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے اقدامات کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے