صبح ایک فاتحہ کے لیے گاؤں (ابوہا) کے درمیان ایک مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک تنگ گلی سے گزرتے ہوئے گاؤں کی روزمرہ سرگرمیوں کی جھلک دیکھنے کو ملی۔ ایک گھر کے دروازے پر بیٹھا دودھ والا اوٹ سے ایک خاتون کو دودھ دے رہا تھا۔
ایک اور گھر کے دروازے سے خاتونِ خانہ بکریاں باہر کی طرف ہانک رہی تھی۔
اس طرح دو بچے گلی کی نالی میں پیشاب کر رہے تھے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مذکورہ گلی کی بھول بھلیوں میں میرا بچپن بھی گم ہوگیا تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر فضل رحمان خان عرف ’’فضلے خان‘‘ کا تھا،جو تجارتی بحری جہازوں میں ’’سی مین‘‘ تھا۔ سال کے سات آٹھ مہینے غائب رہتا۔اُس گھر کی بیرونی دیوار سیمنٹ سے ٹیپ کی گئی تھی۔ گھر کو 70 سال سے زیادہ عرصہ ہوا اور ابھی تک اُسی حالت میں ہے۔ ہم جب کبھی چھٹیوں میں گاؤں آتے، تو اُس گھر میں ضرور ایک چکر لگاتے کہ فضلے خان کی اہلیہ ہمارے والد کی رشتے دار تھی۔
اس گھر سے متصل ایک دوسرا گھر تھا، عبدالروف استاد صاحب کا۔ یہ بھی میرے والد کے عزیز تھے۔ وہ سکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ڈاک خانے کا کام بھی سنبھالتے تھے، جس کے لیے اُن کو محکمہ ڈاک و تار کی طرف سے ساڑھے سات روپیا ماہانہ اعزازیہ ملتا تھا۔
بچپن میں اُن کے گھر بھی ایک آدھ چکر لگا آتے۔ اُس سے آگے کے حصے کو بازار کہتے تھے۔ یہاں پر چھوٹی چھوٹی دو تین دکانیں تھیں۔ ’’ملکی دَم‘‘ کے محنت کش، پہاڑوں سے لکڑیاں لاکر مذکورہ گلی میں بیچتے اور بہ مشکل دس بارہ آنے جوڑ لیتے، جس سے روزمرہ کے لیے چائے کی پتی اور گڑ خرید کر لے جاتے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کچھ دیو مالائی شخصیت مشرف خان بابا کے بارے میں  
بزوگر حاجی صاحب  
تاریخی ودودیہ سکول کے اولین طلبہ  
محمد افضل خان لالا کی یاد میں  
سوات ہوٹل (تاریخ)  
گوجر خواتین دودھ فروخت کرتیں۔ ساتھ ہی انجیر اور جنگلی انگور بھی بیچ کر کچھ پیسے کمایا کرتیں۔
مَیں سوچ رہا تھا کہ اس گاؤں میں کتنا سکون ہوا کرتا تھا۔ بہت غربت تھی، مگر بہت زیادہ خلوص اور محبت تھی۔ منافقت نہیں تھی۔ لوگ دوسروں کی زمینوں پر قبصہ نہیں جماتے تھے۔ اگر بہت حد کی، تو درمیانی حدِ فا صل سے اِک آدھ ہل کا چیرا لگاتے۔
آج کل تو لوگوں کے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہی نہیں۔ حج بھی کرتے ہیں۔ تبلیغوں پر بھی جاتے ہیں اور پرائی زمینیں جریبوں کے حساب سے ہڑپتے بھی ہیں۔ نہ خدا کا خوف، نہ مخلوق کا لحاظ۔
دوستو! گذشتہ دنوں میرے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر ’’فیک آئی ڈی‘‘ کا ایک زبردست واقعہ پیش آیا۔ کسی نے میرے ایک امریکی دوست کی آئی ڈی سے مجھے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی۔ پہلے تو میں تذبذب میں تھا، مگر پھر یہ سوچ درخواست قبول کی کہ کہیں مذکورہ دوست ناراض نہ ہوجائے۔کچھ دیر بعد اُس نے مجھے اپنے بینک اکاونٹ اور چک بک کی تصویریں بھیجنے کو کہا کہ وہ کچھ رقم ویسٹرن یونین کی مدد سے بجھوا رہا ہے اور وہ امریکہ سے آکر پھر واپس لے گا۔
کچھ دیر بعد اُس نے ایک اور تصویر بھیجی جس کے مطابق اُس نے میرے اکاونٹ میں ایک بڑی رقم منتقل کی تھی۔ ہفتے کا دن تھا۔ بینک کی تو چھٹی تھی۔ اگلا دن بھی اتوار کا تھا۔ پھر اُس نے ایک ٹیلی فون نمبربھیجا کہ اس شخص سے رابطہ کریں اور اسے چھے لاکھ روپیا دے دیں۔
مَیں نے جواب دیا کہ میرے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں۔ یہ بینک اکاونٹ بھی پنشن کے لیے کھولا ہے۔ وہ جواباً کہنے لگا کہ کسی سے لے کر دے دیں۔
پھر بات چھے لاکھ سے ہوتے ہوتے دس ہزار پر آگئی۔ مجھے عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اس لیے اپنے پوتے منصور کو اس حوالے سے آگاہ کیا۔ وہ ہنسنے کر کہنے لگا کہ مذکورہ شخص اُسے بھی ریکوسٹ بھیج چکا ہے۔
مَیں نے احتیاطاً وہ ساری چیٹ کاپی کرکے اپنے دوست کو بجھوا دی، تو اُس نے تصدیق کی کہ وہ آئی ڈی اُس کی نہیں تھی۔ ہم نے دوسرے ہی لمحے آئی ڈی رپورٹ کی۔
اب میری سادہ لوحی ملاحظہ ہو۔ میرا مذکورہ دوست کبھی کبھی انگریزی میں چیٹ کرتا ہے اور وہ بھی بہت مختصر۔ وہ کبھی اُردومیں چیٹ نہیں کرتا۔ مجھے کم از کم اس بات کو سمجھنا چاہیے تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔