گذشتہ روز بھارتی میڈیا پر یہ حیران کن خبر چلی کہ بھارتی وزیرِ خزانہ ’’نرملا ستھرامان‘‘ نے کہا ہے کہ ان کے پاس لوک سبھا کے انتخابات لڑنے کے لیے پیسے نہیں۔
نرملا ستھرامان کا کہنا تھا کہ ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے صدر ’’جے پی نڈا‘‘ نے اُنھیں آندھرا پردیش یا تامل ناڈو سے انتخابات لڑنے کا اختیار دیا تھا…… مگر کافی سوچ بچار کے بعد اُنھوں نے بی جے پی کے صدر کو بتایا کہ میرے پاس الیکشن لڑنے کے لیے درکار فنڈز نہیں۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
نرملا ستھرامان کا کہنا ہے کہ مَیں جے پی نڈا کی بہت شکر گزار ہوں کہ اُنھوں نے میری دلیل کو قبول کیا اور اب میں الیکشن نہیں لڑ رہی۔
جب میڈیا نے نرملا ستھرامان سے سوال کیا کہ ملک کی وزیرِ خزانہ کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے پیسے کیوں نہیں ہیں؟ تو اُنھوں نے جواب دیا کہ بھارتی حکومت کا متفقہ فنڈ یعنی حکومتی خزانہ اُن کا ذاتی فنڈ نہیں ۔
اُنھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری تنخواہ، میری کمائی اور میری بچت میری ہے نہ کہ بھارتی حکومت کاخزانہ۔ یعنی موصوفہ اس بار انتخابی مہم پر اُٹھنے والے اخراجات کی رقم نہ ہونے کے سبب انتخابی دوڑ سے باہر ہوچکی ہیں۔
قارئین! یاد رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا کے لیے عام انتخابات کا آغاز 19 اپریل سے ہو گا۔
پیارے پاکستانیو! ہے نہ حیران کن خبر……!
کاش، یہ خبر بھارت کی بجائے پاکستان کے حوالے سے سننے اور دیکھنے کو ملتی۔ بھارت کیسا بدقسمت ملک ہے، جہاں اس کی وزیرِ خزانہ کو اگلے انتخابات کے اخراجات پورا کرنے کے لیے قومی خزانہ سے چند کروڑ روپیا نکالنے کی توفیق نہ مل سکی۔
کاش، یہ وزیرِ خزانہ بڑے بڑے قومی پراجیکٹوں سے تھوڑی سی ’’کک بیکس‘‘ کی رقم ہی بٹور لیتیں۔
کاش، اس سادہ لوح خاتون کو کوئی سمجھاتا کہ محترمہ……! کچھ ہوش کے ناخن لیں، اس قدر ایمان داری سے کام کرنے سے آپ کی آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟
دیگر متعلقہ مضامین: 
کاش، ایک اروند کجریوال ہمارے ہاں بھی ہوتا  
ایم آر پی سسٹم کا اعزاز صرف انڈیا کو حاصل ہے 
انڈیا کا گلابی گینگ بدمزاج شوہروں کا علاج کرتا ہے 
اروند کجریوال ہی سے کچھ سیکھ لیں
کاش، اس سادہ لوح وزیرِخزانہ کو کوئی سمجھاتا کہ محترمہ……! بھارتی قومی خزانہ اَربوں کھربوں کاسمندر ہے…… اور اس خزانے سے چندکروڑ روپے نکلوا لینا ایسے ہی ہوتا کہ جیسا کہ سمندر سے چند بالٹیاں پانی نکال لیا جائے، تو سمندر کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔
کاش، اس محترمہ کو عقل ہوتی، تو بڑے بڑے ٹھیکے داروں اور ڈیولپرز سے تعلقات قائم کرتیں، تاکہ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز جاری کرتے وقت یہ ٹھیکے دار ان کا خیال ضرور رکھتے ۔
کاش، موصوفہ سمندر پار بے نامی کمپنیوں کی مالک ہوتیں، تو اُن کے بے نامی بینک اکاونٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز کی فراوانی ہوتی۔
کاش، بھارتیہ جنتا پارٹی عقل سے کام لیتی، تو ان محترمہ کو پاکستانی وزرائے خزانہ کی طرح مخصوص نشستوں سے منتخب کروانے یا پھر بلامقابلہ انتخاب جتوانے کا بندوبست کرتی۔
بھارت بھی کیسا بدقسمت ملک ہے، جہاں اس کو ’’درآمد شدہ غیر منتخب وزرائے خزانہ‘‘ نہیں ملتے۔
دوسری طرف پاکستان ہی کو دیکھ لیں کہ چُن چُن کر غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو پاکستان کے خزانہ کی رکھوالی پر رکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ شوکت عزیز ہوں، یا حفیظ شیخ، یا پھر حال ہی میں وزارتِ خزانہ کی کرسی پر براجمان ہونے والے محمد اورنگزیب، یا پھر رضا باقر کی شکل میں سٹیٹ بینک کے گورنر کی تعینانی۔
اور ان درآمد شدہ افراد کے لیے وزارتِ خزانہ کی کرسی میں حائل تمام رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے انتہائی نفیس انداز سے ختم کروایا جاتا ہے۔
قارئین! ماضی کو چھوڑیں…… ابھی حال میں وزارتِ خزانہ کی مسند پر براجمان ہونے والے محمد اورنگزیب صاحب ہی کو دیکھ لیں کہ موصوف کی نام زدگی کے وقت تک ہالینڈ کی شہریت تھی…… اور پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بھی آئینِ پاکستان میں درج سہولت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کو وزارتِ خزانہ سونپ دی گئی۔ اب موصوف کو سینٹ کا منتخب ممبر بھی بنوایا جارہا ہے (سبحان اللہ!)
قارئین، ایک طرف بھارت دنیا کی اُبھرتی ہوئی بڑی معاشی طاقت بننے جارہا ہے، جہاں اس کے وزیرِ خزانہ کے پاس آیندہ انتخابی مہم کے لیے چند لاکھ یا کروڑ روپے تک دست یاب نہیں۔ دوسری جانب قرضوں میں جکڑی ہوئی ریاستِ پاکستان…… جس کی معیشت اور سالانہ بجٹ کا انحصار پاکستانی عوام کے ٹیکسوں کے ذریعے خون نچوڑنے کے علاوہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں پر ہے، یہاں منتخب نمایندوں کی بجائے غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد ہی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔
ظاہری سی بات ہے کہ ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ’’ورلڈ بینک‘‘ جیسے ادارے جب قرض دیں گے، تو اُن کو اپنی قرض کی رقم کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اُنھی کے اداروں میں کام کرنے والے افراد کو وزیرِ خزانہ یا سٹیٹ بینک کا گورنر تعینات کروایا جاتا ہے۔
جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، تب تک بھارت کو اپنا دوست ملک قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہم لاکھ مرتبہ بھارت کو اپنا ازلی دشمن قرار دیں، یقینی طور پر اس میں شک کی گنجایش بھی نہیں، لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت میں آزادی کے حصول کے بعد جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی استحکام نے بھارت کو بہ طورِ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا ہے۔
اِس وقت بھارتی ریاست عالمی طاقتوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی نظر بھی آرہی ہے۔
قارئین! بس دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ کاش…… پاکستان میں صحیح معنوں میں جمہوریت کا تسلسل اور دائمی سیاسی استحکام قائم ہوجائے، تاکہ بھارتی وزیرِ خزانہ ’’نرملا ستھرامان‘‘ جیسی خبریں اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں بھی دیکھنے اور سننے کو ملیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔