پتا چلا تھا کہ صوبہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اس مرتبہ 10ویں جماعت تک مفت کتب مہیا نہیں کی جائیں گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس مد میں نگران حکومت نے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے تھے۔ وزیرِ اعلا بنتے ہی محترمہ مریم نواز شریف نے مطلوبہ فنڈز فوری طور پر جاری کر دیے، جس کی وجہ سے کتب کی پرنٹنگ کا کام جاری کر دیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اربوں روپے کی لاگت سے چھپنے والی یہ کتابیں انگریزی میڈیم میں چھاپنے کی بجائے اُردو میڈیم میں چھاپی جائیں، تاکہ 100 فی صد طلبہ ان سے مستفید ہو سکیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
یادش بخیر! پرویز مشرف صاحب کے دورِ حکومت میں ق لیگ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ پنجاب کی وزارتِ اعلا کا قلم دان چوہدری پرویز الٰہی کے پاس تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی ایک زیرک اور سمجھ دار سیاست دان ہیں۔ وزیرِ اعلا بننے سے پہلے اُن کے پاس پنجاب کی سپیکر شپ کا تجربہ موجود تھا۔ اس سے بھی بہت پہلے ن لیگ کے دورِ اقتدار میں وہ بلدیات کی اہم وزارت کو بڑی کامیابی سے نبھا چکے تھے۔ ان کے تعلقات بھی بہت وسیع تھے۔
وزیرِ اعلا بننے کے بعد پرویز الٰہی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج خود کو منوانا تھا۔ اُن کے پیش رو میاں شہباز شریف نے ایک اَن تھک، معاملہ فہم، عوام دوست اور تعمیر و ترقی کے دل دادہ وزیرِاعلا کی حیثیت سے خوب نیک نامی کمائی تھی۔ پرویز الٰہی کو اپنا آپ ثابت کر کے دِکھانا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنھوں نے ہر لحاظ سے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکز کی طرف سے اُنھیں ’’فری ہینڈ‘‘ ملا ہوا تھا، جس کا اُنھوں نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ ریسکیو 1122 کا قیام انھی کے مرہونِ منت ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تعلیم کے شعبے میں بھی بے پناہ کام کیا۔ تعلیمی مسائل کو بہت باریک بینی سے سمجھا اور اُن کے حل کو یقینی بنایا۔ میٹرک تک سرکاری سکولوں میں کتابوں کی مفت فراہمی کا آغاز بھی اُنھوں نے کیا تھا۔ اس سے یونیورسل ایجوکیشن کی جانب کامیاب سفر کا آغاز ہوگیا۔ شرحِ داخلہ میں بھی اضافہ ہوا اور بچیوں کو بہتر حاضری کی بنیاد پر وظائف کے اجرا سے دیہات میں طالبات کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ جن کے لیے اساتذہ کی بھرتی کو یقینی بنا کر فروغِ تعلیم کے لیے بھرپور اور موثر اقدام کیے گئے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ہمارے گھر اور سکول بچوں کے لیے عقوبت خانے ہیں 
سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج خراب کیوں؟  
میٹرک نتائج، سرکاری سکولوں کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ 
سکولوں کے اوقاتِ کار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے
اشار بنڑ کا سرکاری بھوت بنگلہ 
اُن کے بعد میاں شہباز شریف دو مرتبہ وزیرِ اعلا بنے اور پھر یہ تاج عثمان بزدار کے سر پر سجایا گیا۔ سب وزرائے اعلا نے چوہدری پرویز الٰہی کی اصلاحات کو آگے بڑھایا۔ مفت کتابیں دینے کا سلسلہ سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پیف سکولوں میں بھی جاری ہوچکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں کتابیں چھپوا کر طلبہ میں تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن افسوس کہ اس سہولت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابیں انگلش میڈیم میں چھپی ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کی 70 فی صد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے اور جن کے لیے اُردو بولنا تو درکنار اُردو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے، وہاں پر انگریزی ذریعۂ تعلیم لاگو کرنا غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فروغِ تعلیم کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پرائمری سطح پر ذریعۂ تعلیم اُردو کے ساتھ ساتھ مادری زبان کو بنایا جاتا، لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ حکومت نے جانے کس کے ’’مطالبے‘‘ پر یہ انوکھا فیصلہ کر ڈالا تھا کہ سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم ذریعۂ تعلیم ہوگا۔ یہ فیصلہ بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ چناں چہ پنجاب حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے کر طلبہ کو اختیار دے دیا کہ وہ اُردو یا انگریزی میں سے جو میڈیم چاہیں اختیار کرلیں۔ دیہاتی سکولوں میں ایک فی صد طلبہ بھی انگریزی میڈیم اختیار نہیں کرتے، جب کہ شہروں میں بھی انگلش میڈیم طلبہ کی تعداد 10 فی صد سے کم ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پورے صوبے میں طلبہ کو مفت کتابیں انگلش میڈیم میں مہیا کی جاتی ہیں، جن سے استفادہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ کتابیں بے کار پڑی رہتی ہیں۔ طلبہ بازار سے اُردو میڈیم کتابیں خریدتے ہیں، جو اس ہوش رُبا مہنگائی کے دور میں والدین پر اس لیے بوجھ ہے کہ حکومت مفت کتابیں دے رہی ہے۔ اگر یہی کتابیں اُردو میڈیم میں چھپوا کر تقسیم کی جائیں، تو اس سکیم سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ صرف اُن طلبہ کو انگلش میڈیم کتابیں دی جائیں جن کا ذریعۂ تعلیم انگریزی ہو، ورنہ اس منصوبے کی حیثیت بکری سے دودھ لینے جیسی ہی ہوگی۔ بکری دودھ تو دیتی ہے، مگر اس میں مینگنیاں ڈال دیتی ہے جس سے وہ دودھ بے کار جاتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر سال انگلش میڈیم کتابیں دینے کے باوجود آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف انگلش میڈیم میں امتحان لیا گیا ہو۔ ہمیشہ اُردو میڈیم کا آپشن ساتھ میں دیا جاتا ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک طلبہ اُردو یا انگلش جس میڈیم میں چاہیں پیپر حل کریں۔ میٹرک میں 95 فی صد طلبہ اُردو میڈیم میں پیپر حل کرتے ہیں۔ ابھی رواں ہفتے پہلی سے آٹھویں جماعت تک امتحان کے لیے سرکاری طور پر سوال نامے پیپر بینک کے نام سے جاری کیے گئے۔ وہ بھی اُردو اور انگلش دونوں میڈیم میں تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر مفت تقسیم ہونے والی انگلش میڈیم کتابوں کی اِفادیت کیا ہے؟ یہ کس کی پالیسی ہے کہ اُردو میڈیم میں امتحان دینے والے طلبہ کو انگلش میڈیم میں کتب مہیا کی جائیں؟
یہ کیسامذاق ہے کہ پہلی جماعت کا بچہ جسے صحیح طرح اُردو میں ہجے کرنے بھی نہیں آتے، اُسے انگلش میں ریاضی کے کانسپٹ کلیئر کرائے جائیں۔ چوتھی پانچویں جماعت کے طلبہ ریاضی کے ساتھ ساتھ سائنس بھی انگریزی میں پڑھیں۔ایسے احمقانہ فیصلے کون کرتا ہے؟ کہیں پرائیویٹ پبلشرز کو نوازنے کے لیے تو ایسا نہیں کیا جا رہا؟
ایک طرف حکومت ہر سال شرحِ داخلہ میں اضافے پر زور دیتی ہے، دوسری طرف تعلیمی عمل میں رکاوٹیں ڈال کر اپنے ہی احکامات کو غیر اہم کر رہی ہے۔
اب سرکاری سکولوں میں طلبہ کے سالانہ امتحانات ہوچکے ہیں۔ یکم اپریل سے نئے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوگا۔ نئے سال کے لیے کتابیں چھپنا شروع ہوچکی ہیں۔ کیا پنجاب حکومت تک کوئی درد مند یہ اہم مسئلہ پہنچائے گا کہ ردی کی حیثیت رکھنے والی انگلش میڈیم کتابوں کی بجائے اس سال طلبہ کو عملی اِفادیت رکھنے والی اُردو میڈیم کتابیں مہیا کرکے طلبہ اور غریب والدین کی دعائیں لی جائیں۔
اے چارہ گرو! کچھ چارہ گری کرو۔ سابقوں کی کھینچی گئی لکیر کے فقیر بننے کی بجائے اپنے مثبت نقوش ثبت کر جاؤ، تاکہ آنے والے حکم ران آپ کی تقلید کریں۔
وما علینا الاالبلاغ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔