آزادی کے بعد بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان کا ’’ٹیک آف‘‘ انتہائی شان دار تھا۔ جس تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کررہا تھا، وہ قابلِ رشک تھا۔ شاہِ ایران ہر دوسرے ماہ پاکستان کا دورہ کرتے تھے اور پاکستان کی ترقی کو حیرت سے دیکھتے تھے۔ پہلی عالمی آواز بھی پاکستان ہی کی دنیا میں گونجی تھی۔ شام، اُردن اور مصر کی سفارت کاری آزادی اور بحالی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا۔ سعودی عرب میں 1970ء تک پاکستان سے زکوٰۃ جاتی تھی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافے کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ یو اے ای کی ترقی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا۔ دنیا کی چوتھی بہترین ایئر لائن ایمریٹس کراچی سے شروع ہوئی تھی۔ ہم نے اُنھیں جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی۔ مالٹا کے بچوں کے سلیبس میں پی آئی اے کا پورا ایک باب ہے، جسے اب ہم بیچنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ سنگاپور ایئر لائن اور پورٹ دونوں پاکستانیوں نے بنائی۔ انڈونیشیا اور ملائشیا کی اشرافیہ کے بچے پاکستان میں پڑتے تھے۔ ملائشیا کا آئین تک پاکستانی وکلا نے لکھا تھا۔ جنوبی کوریا کی گروتھ میں محبوب الحق کے پنج سالہ منصوبے کا اہم کردار تھا۔ بھارت، پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور منموہن سنگھ نے ’’شائننگ انڈیا‘‘ کا پورا منصوبہ پاکستان سے لیا تھا۔ دنیا کی تین بڑی انجینئرنگ فورمز نے 1960ء کی دہائی میں کنسرشیم بنا کر منگلہ ڈیم دیکھا تھا اور ہارورڈ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کلاس کے طالب علم جہاز بھر کر مطالعہ اور مشاہدے کے لیے منگلہ آتے تھے اور اس منصوبے کو حیرت سے دیکھتے تھے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
اس طرح مسلم دنیا کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں ٹرینڈ ہوئے اور بعد ازاں اپنے اپنے ملکوں میں آرمی چیف بنے۔ یو اے ای کے حکم ران زید بن سلطان النہان 1970ء کی دہائی تک پاکستان کے دورے پر آتے تھے، تو اُن کا استقبال کمشنر راولپنڈی اور ڈی جی خان میں ڈپٹی کمشنرکیا کرتے تھے۔ ہمارے وزیر بھی ایئرپورٹ نہیں جاتے تھے۔
سب سے بڑھ کر 1961ء میں جب ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے، تو پوری امریکی کابینہ نے صدر جان ایف کینیڈی سمیت ایئر پورٹ پر اُن کا استقبال کیا۔ جہاں سے صدر ایوب خان ایئرپورٹ سے وائٹ ہاؤس کھلی گاڑی میں گئے اور سڑک کے دونوں سائیڈوں پر امریکی عوام پھول لے کر کھڑے تھے، جو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’ویلکم ویلکم‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
تان یہاں پر آکر نہیں ٹوٹتی، بلکہ ابھی حیرت کے پہاڑ اور بھی ہیں۔ ایک ایساشان دار وقت بھی پاکستان نے دیکھا ہے جب دنیا حیرت سے اس کی طرف دیکھتی تھی، جب پاکستان جرمنی اور جاپان جیسے ملکوں کو قرضے اور امداد دیتا تھا۔ ہماری اسٹیل مل اپنے عروج پر تھی۔ ہماری انڈسٹری کا پہیا گھوم رہا تھا۔ کاٹن انڈسٹری میں جان تھی۔ لوگوں کے پاس روزگار تھا۔ ہنر مند لوگوں نے محنت اور مشقت سے اپنی ذاتی فیکٹریاں لگانا شروع کردی تھیں اور کراچی روشنیوں کا شہر بن چکا تھا۔ لاہور میں امن، سکون اور خوش حالی کا راج تھا، لیکن پھر اس ملک پر ایک ایسا دور آیا کہ ملک کنگال اور حکم ران دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ دنیا بھر میں ان کی جائیدادیں اور کاروبار پھیلنا شروع ہوگئے اور ہمارے قومی ادارے تباہ حال ہوکر ڈیفالٹ کرگئے۔ کراچی اسٹیل مل بند کردی گئی۔ عوام بے روزگار اورملک بھر کی انڈسٹری ٹھپ ہوتے ہوتے بند ہوگئی۔ یوں ملک مقروض ہوگیا اور ہم اپنے قرضے کی قسط دینے کے لیے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ ہمارے حکم ران ایک ارب ڈالر کے لیے دنیا کے دروازے پر بھکاری بن کر بیٹھ گئے۔ وہی ملک جس کے صدر نے ائیر پورٹ پر ہمارے صدر کا استقبال کیا تھا، اُسی ملک کے ائیر پورٹ پر ہمارے وزیرِ اعظم کے کپڑے تک اترواکرتلاشی لی گئی اور دنیا نے نفرت سے ہمیں دیکھنا شروع کردیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
مریم نواز پر وقت سے پہلے تنقید جائز نہیں 
کانٹوں بھرا تاج 
جمہوریت بہترین انتقام ہے 
عدالتوں میں 22 لاکھ سے زاید زیرِ التوا مقدمات 
ایک وقت تھا جب ہم ویزے کے بغیر پوری دنیا میں سفر کرتے تھے اور آج یہ وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب ہمیں افغانستان کے ویزے کے لیے بھی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ بھارت ہمیں ویزہ ہی نہیں دیتا اور یورپ والے ہمیں منھ نہیں لگاتے۔ دنیا کا کنگال سے کنگال ملک بھی پاکستانیوں کے لیے ویزے کی سہولت دینا چاہے، تو وہاں جانے کے لیے بھی لوگوں کی لائن لگ جائے گی۔ سعودیہ، دبئی، مسقط اور قطر میں لاکھوں پاکستانی مزدوری کررہے ہیں، جو کئی کئی سال سے اپنے گھروں کا منھ نہیں دیکھتے۔ ان کے والدین اور بیوی بچے ان کی شکل دیکھنے کو ترس گئے ہیں، لیکن وہ کام میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ گھر واپسی کا راستہ بھول چکے ہیں۔ اس لیے کہ انھی کی محنت و مشقت کے ذریعے ان کے گھر کا چولھا جلتا ہے۔ ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر وہ واپس پاکستان آگئے، تو پھر ان کا حشر بھی ہمارے عام پاکستانیوں جیسا ہوجائے گا۔ ایسا کیوں ہوا، کیا کبھی ہم نے سوچنے کی زحمت کی ہے؟ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے بڑی محنت اور جد و جہد سے اس ملک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، مگر سوال پھر بھی وہی ہے کہ کیا ہمارے پاس واپسی کی کوئی گنجایش ہے……؟ تو جی ہاں! اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔ خوش قسمتی سے ہم تاحال ایک قوم ہیں اور ہمارا جغرافیہ بھی بحال ہے۔ لہٰذا ہم آج اگر خوابِ غفلت سے جاگ اُٹھیں اور اپنے حال پر رحم کریں، تو ہم چندبرسوں میں دوبارہ اس لیول پر ا ٓسکتے ہیں جس پر ہم دوسرے ملکوں کو امداد اور قرضے دیاکرتے تھے۔ کیوں کہ ہمارے پاس زرخیز زمین ہے۔ معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں۔ خوب صورت گلگت بلتستان ہے۔ دل کو موہ لینے والے نظاروں والاجنت نظیر کشمیر ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں ٹھگ قسم کے حکم رانوں سے جان چھڑوانا ہوگی۔ پڑھی لکھی، باشعور اور محب وطن قیادت کو آگے لانا ہوگا، جن کی دنیا میں تو کیا پاکستان میں بھی جائیدادیں نہ ہوں۔ اعجاز قریشی، محی الدین وانی، طاہر رضا ہمدانی، طاہر انوار پاشا اور خواجہ احمد حسان جیسے افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہ صرف اہم ذمے داریاں دی جائیں، بلکہ انھیں مکمل آزادی بھی دی جائے کہ آپ نے ملکی اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ ملک کو خوش حال بنانا ہے۔ بچوں کو عملی تعلیم سے روشناس کروانا ہے۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے، تو پھر خدارا! پی آئی اے کو بیچنے کی بجائے خواجہ اکبر یا بجاش نیازی کو ٹھیکے پر دے دیں، جنھوں نے فیصل موورز اور نیازی بس سروس کو ایک ٹرمینل سے بڑھاتے بڑھاتے پورے ملک کے شہروں تک پھیلا دیا ہے۔ ہمارے قومی ادارے ہمارا اثاثہ ہیں، انھیں ترقی دینے کے لیے ترقی پسند لوگوں کو آگے لائیں، نہ کہ ان کی نج کاری کرنے والوں کو براجمان کریں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے اور اسے ہم نے ہی لیکر آگے جانا ہے۔ بس ہمت، جرات اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ ورنہ گھر کی چیزیں بیچتے بیچتے ایک دن کہیں خدانخواستہ پورا گھر ہی نہ بیچنا پڑجائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔