اس کرۂ ارض پر جمہوریت کا سورج انقلابِ فرانس کا تحفہ ہے۔ اگر اُس وقت کچھ انقلابی ہاتھوں میں بغاوت کا علم نہ اُٹھاتے، تو دنیا آج بھی شہنشاہی کے آہنی پنجوں ہی میں سسک رہی ہوتی۔
اشرافیہ کے مظالم جب حدود نا آشنا ہوجاتے ہیں، تو پھر مجبور و مقہور لوگ ہاتھوں میں ہتھیار بھی اُٹھا لیتے ہیں اور یوں ایک نئی صبح کا آغاز ہوجاتا ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
فرانس میں بھی مظالم کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ ناانصافی اُس کے در و دیوار سے ٹپک رہی تھی، جس کی وجہ سے کم زور و ناتواں طبقے کی فریاد سننے والا کوئی فورم باقی نہیں بچا تھا۔ عوام کے پاس ایک ہی راستہ باقی تھا اور وہ تھا مسلح جد و جہد۔ اُنھوں نے اسی راہ کا انتخاب کرکے ظالموں سے اپنا حساب چکتا کیا، جس سے سوسائٹی کا پورا نقشا بدل گیا۔
روسو، والٹیئر، کلارک اور برٹینڈ رسل جیسے فلاسفروں نے جمہوریت کی آبیاری اپنے لہوسے کی۔ اُنھوں نے ریاستی مظالم کے سامنے سر جھکانے کی بجائے ریاستی جبر کو اپنے سینے پر جھیلا۔ اُن کی عظیم جد و جہد رنگ لائی اور یوں دُنیا کو جمہوری روح کے سامنے سر نگوں ہونا پڑا۔ جبریت پر مبنی ہر قسم کا نظام انسانی نفسیات کے لیے برداشت کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا نظامِ حکومت انسانی اذہان میں جگہ نہ پاسکا۔یہ سچ ہے کہ سقراط، افلاطون اور ارسطو جمہوری رویوں کے بہت بڑے علم بردار تھے، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قدیم دنیا کے ان عظیم فلاسفروں کی کاوشوں کے باوجود دنیا جمہوریت کی جانب گام زن نہ ہوسکی۔ کیوں کہ اشرافیہ کی کڑی گرفت کو شکست دینا عوام کے بس میں نہیں تھا۔
یونان کی اشرافیہ ہی کو لے لیں، جس نے جمہوریت کی کھل کر نفی کی اور سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا۔ اشرافیہ کی اَنا اتنی بڑی تھی کہ وہ اپنے مال و دولت کے انبار کی موجودگی میں اپنے معاملات کو عوامی عدالت کے حوالے کرنے کے لیے مطلق تیار نہیں تھی۔وہ خود کو اعلا و برتر سمجھتی تھی۔ لہٰذا جمہوریت کی جانب اُن کے میلانِ طبع کے انکار کو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ لعل و زر و جواہر کا پیغام یہی ہوتا ہے کہ اصل طاقت دولت کی ہے، باقی سب دنیائے شعرو سخن ہے۔
وقت کا پہیا بڑا طالم ہو تاہے، جو چپکے چپکے اپنا فریضہ سر انجام دیتا رہتا ہے۔ سچائی، انسانی حرمت، انسانی تقدس اور اس کی عظمت کا ہر نظریہ انسانوں کے اندر کسی نئی منزل کی نشان دہی کرتا رہتا ہے، جسے وقت کے دانش ور، فلاسفر اور لکھاری نیا رنگ عطا کرتے رہتے ہیں…… لیکن اہلِ زر اسے تسلیم نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو آج بھی جاری ہے۔
وقت کے پہیے کی قوت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بے شمار بادشاہی ریاستیں جمہوریت کی جانب راغب ہوگئیں اور یوں جمہوری روح نے اس کرۂ ارض کی اغلب اکثریت کو اپنی اِفادیت کا ہم نوا بنالیا ۔ دنیا میں فوجی، آمرانہ اور ملوکانہ حکومتیں تھیں اور عوام اُن کے ظلم و جبر کو سہنے کے لیے مجبور تھے، جب کہ جمہوریت انسانیت کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
آئینِ پاکستان اور ہمارے بنیادی حقوق
سرزمینِ بے آئین
غیر اخلاقی و غیر آئینی کام کا فائیدہ نہیں ہوتا
ملکِ عظیم آئینی بحران کا شکار
حکومت مقدم ہے یا آئینِ پاکستان کا تحفظ؟
پاکستان میں بھی جمہوری نظام موجود ہے، لیکن اس پر بے شمار سوالات ہیں۔ ہر الیکشن دھاندلی کے الزامات پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور ملکی معاملات کو مزید اُلجھا دیتا ہے۔ کچھ ادارے اور افراد دھاندلی کو ہوا دیتے ہیں، جس کے پاس جتنی طاقت ہوتی ہے، وہ اُسی کے مطابق دھاندلی سے باز نہیں آتا۔ ملک میں چوں کہ قانون و انصاف کاکوئی وجود نہیں، لہٰذا دھاندلی سے کوئی شخص خوف زدہ نہیں ہوتا۔
پاکستان میں قانون صرف کم زوروں کے لیے ہوتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے قانون کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ قانونی گرفت سے بچ نکلتی ہے۔ 8 فروری 2024ء کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی جس وسیع پیمانے پر ہوئی، اُس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہارے ہوئے جیتے ہوئے ہیں، اور جیتے ہوئے ہارے ہوئے ہیں۔ کچھ با ضمیر ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور یوں دوسروں کے لیے ایک اُجلی مثال قائم کی۔ بہادروں کا کام تو یہی ہوتا ہے کہ وہ فتح اور شکست کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے، بلکہ ہار اور جیت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اپنی جیت کے لیے کرپٹ طریقے نہیں اپناتے اور نہ ایسی جیت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی ہوتے ہیں، جو جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہو۔
قارئین! مَیں نے اپنی زندگی میں ایسے انتخابات نہیں دیکھے جس میں دن دھاڑے لوٹ مار کا بازار گرم کیاگیا ہو۔ ایک سرکاری ملازم نے کسی کے دباو میں جس طرح پوری قوم کا مینڈیٹ لوٹا، وہ ناقابلِ معافی ہے۔ یہ کتنا بڑا جرم ہے کہ کچھ حلقوں کو اِس وقت اِس کا احساس نہیں ہو رہا۔ یہ ایک قومی جرم ہے، جسے کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اسمبلیوں کے اندر جو اُودھم مچا ہوا ہے، وہ عوامی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ مَیں تو آنے والے دنوں میں اسمبلیوں کے اندر خونی مناظر دیکھ رہا ہوں۔ شورو غوغا کی اسیر قوم کا مینڈیٹ جس طرح لوٹا گیا، اُسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اسمبلیوں میں دست و گریباں ہونا معمول کی کارروائی ہوگی۔ کسی جماعت سے نشان چھین کر، اُس کی جیتی ہوئی نشستوں پر قابض ہوکر، اُنھیں بے یار و مددگار چھوڑ دینے جیسا ظلم کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟
ڈھٹائی کی بھی کوئی حد ہو تی ہے اور ان انتخابات میں تمام حدیں پار کر دی گئی ہیں۔ یہ ملک ڈھٹائی سے نہیں، بلکہ جمہوری اُصولوں کو تسلیم کرکے ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے شب خون کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو جَلا وطن کیا گیا اور یوں جنرل مشرف 10 سالوں تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا، لیکن مسلم لیگ (ن) جمہوریت کے لیے اپنی جنگ جاری و ساری رکھنے کے عزم کا اِعادہ کرتی رہی۔ کیا یہ وہی جمہوریت تھی جس میں جیتے ہوئے اُمیدواروں کی نشستیں چھین کر اُنھیں جیل کی سلاخو ں کے پیچھے دھکیل دیا جائے؟
پوری دنیا لعن طعن اور تنقید کر رہی ہے، لیکن اہلِ اقتدار کسی کی بھی بات سننے کے روا دار نہیں۔ کیوں کہ اُن کے سروں پر کسی ایسی قوت کا سایہ ہے، جس کے سامنے لب کشائی کا اِذن نہیں۔ خدا را! کوئی ایسی راہ نکالیے، جس میں حقیقی جیتنے والا اپنی نشست کا حق دار قرار پائے۔ وگرنہ ناانصافی کی یہ آگ سب کچھ بھسم کر دے گی۔
جنرل پرویز مشرف جیسے طالع آزما اسی طرح کے باہمی انتشار، بد امنی اورجنگ و جدل کے بعد منظرِ عام پر آتے ہیں اور جمہوریت کا خون کر دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے جمہوریت کے ساتھ جس طرح کا کھلواڑ کیا، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اشرافیہ راتوں رات اپنی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی گود میں بیٹھ گئی۔ کیوں کہ اشرافیہ کی عافیت اسی میں تھی۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ اشرافیہ کبھی طاقت کے مراکز کو چیلنج نہیں کرتی، بلکہ آمریت کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ زِندانوں اور اور کال کوٹھڑیوں کی سیاست نہیں کرتی، بلکہ اقتدار کی کرسی کے طواف سے اپنی دنیا روشن کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی طالع آزمائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر محترمہ بینظیر بھٹو کو جَلا وطنی کا زہر پینا پڑا تھا۔ مَیں اُن کی دلی اذیت کا عینی شاہد ہوں۔ اُن کے دلِ مضطر میں جس طرح کا مد و جذر تھا، میں اُسے محسوس کرسکتا تھا۔ عوامی راج کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اُنھوں نے جب 18 اکتوبر 2007ء کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا، تو اُن کا استقبال کارساز پر بم دھماکوں سے کیا گیا۔ بی بی شہید تو معجزانہ طور پر اس حملے میں بچ گئیں، لیکن 150جیالوں کی لاشیں اس کی جھولی میں ڈ ال دی گئیں۔ جمہوریت کی جنگ میں 27 دسمبر 2007ء اُن کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ اشرافیہ جیت گئی اور جمہوریت کی علامت بی بی شہید اپنے عوام سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئیں۔ جمہوریت کی اتنی بڑی قربانی بی بی شہید جیسی عظیم شخصیت ہی دے سکتی تھی۔
قارئین! وقت کا تقاضا ہے کہ ہم صاف و شفاف انتخابات کا انتظام کریں اورا قتدار اُس قائد کے حوالے کریں جو عوامی مینڈیٹ کا حق دار ہو۔ یہی وقت کی آواز ہے اور اس پر لبیک کہنا ہر ایک کا آئینی فرض ہے۔ وقت نازک ہے، لہذا آئین سے رو گردانی کی اَب گنجایش نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔