8 فروری کے انتخابات ہوچکے۔ عوام نے منقسم مینڈیٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے۔ غالب امکان ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنائیں گی۔ یقینی طور پر مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم، باپ پارٹی بھی کولیشن گورنمنٹ کا حصہ ہوں گی۔ میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری بڑے معاملہ فہم اور زیرک سیاست دان ہیں۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی فراست اور بصیرت سے ملک کی کشتی کو معاشی بھنور سے نکال کر کنارے پر لے آئیں گے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
جب گھٹن بڑھ جائے، تو تازہ ہوا کے جھونکے کے لیے کوئی کھڑکی کھولنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ورنہ دم گھٹنے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ 2006ء میں ایسے ہی گھٹن زدہ سیاسی حالات تھے۔ پرویز مشرف ملک پر قابض تھے۔ ق لیگ اُن کے فرنٹ مین کے طور پر موم کا ناک بنی ہوئی تھی۔ وہ جدھر چاہتے اس مومی ناک کو مروڑ لیا کرتے تھے۔ ملک کی حقیقی سیاسی لیڈرشپ پر اپنے ہی وطن کے دروازے بند تھے۔ ایسی صورتِ حال میں دونوں بڑے سیاسی حریفوں جناب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے وقت کی نزاکت کو محسوس کیا اور 14 مئی 2006ء کو اُن دونوں کے درمیان لندن میں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پر دستخط ہوئے، جس کے تحت جمہوریت اور جمہوری اداروں کی بقا اور ’’بحالی‘‘ کے لیے مل کر چلنے پر اتفاق ہوا۔ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی اکابرین بھی اس موقع پر موجود تھے۔ گو کہ 2007ء میں صدر کی وردی پر استعفا دینے کے معاملے پر دونوں بڑی پارٹیوں میں اتفاق نہ ہوسکا اور پیپلزپارٹی کے بغیر ہی میاں نوازشریف نے ’’اے پی ڈی ایم‘‘ بنا ڈالی، مگر اس کے باوجود اس معاہدے کے بڑے دور رس نتائج نکلے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، تو یہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ ہی کا کمال تھا کہ 2008ء سے 2013ء تک پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں کوئی ایک بھی سیاست دان یا ورکر سیاسی قیدی بن کر جیل میں نہ گیا۔
اب پھر حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ مزید ایک ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پلس ’’میثاقِ وفا‘‘ کی ضرورت ہے۔ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری چاہیں، تو گذشتہ چھے سال سے مسلسل تنزل کی جانب جاتا ہوا ملک سنبھل کر ترقی کے راستے پر گام زن ہو سکتا ہے۔ دونوں ہی مدبر شخصیات ہیں۔ سرد و گرم چشیدہ ہیں۔ اس وقت وطنِ عزیز کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، جو مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرسکے۔ جس پر دوست ممالک کو اعتماد ہو اور جو قومی معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
نگران حکومت کا عوام پر آخری وار  
انتخابی نتائج، تاخیر اور آئینی تقاضے 
پی ٹی آئی بارے سپریم کورٹ فیصلے کے 20 نِکات  
انتخابی تنازعات اور تصفیے  
اصلی، نسلی اور فصلی  
حالیہ الیکشن میں کسی پارٹی کو بدقسمتی سے سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔ اگر میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ دی جاتی ہے، تو یقینا وہ اپنی ترجیحات کے مطابق حکومت بنا پائیں گے، نہ اپنی کابینہ تشکیل دے سکیں گے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بھی اسی لیے ناکام ہوئی تھی کہ اسے قدم قدم پر سیاسی اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب بھی اگر حالات ویسے بن جاتے ہیں، تو ملک معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے بحران سے نہیں نکل پائے گا۔ ہمارے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے سیاسی مفتیان نے تو ابھی سے فتوے دینے شروع کر دیے ہیں کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت چھے ماہ سے دو سال کے عرصے میں ختم ہوجائے گی۔ اب یہ جناب آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے تدبر کا امتحان ہے کہ وہ اپنے تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے کیسے ان سیاسی مفتیان کرام کے فتوؤں کا عملی طور پر رد کرتے ہیں۔ وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ جس جس پارٹی کو بھی عوام نے مینڈیٹ دیا ہے، اُسے حکومت میں شامل کر لیا جائے۔ خواہ اس کی ایک ہی سیٹ ہو۔ ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے، جو صرف ملک اور عوام کا سوچے۔ سیاسی ترجیحات کو ایک طرف رکھ کر صرف وطنِ عزیز کی فکر کی جائے۔
ویسے بھی سیاست میں آگے بڑھنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے سیاست دانوں کا مل بیٹھنا ضروری ہوتا ہے۔ انتخابات کے دنوں میں ایک دوسرے کی ڈٹ کر مخالفت کی جاتی ہے، مگر حکومت بن جانے کے بعد عوام کی بھلائی کی خاطر تمام سیاسی قوتوں کو مل جل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا لیا جائے، تو ملک تنزل کی جانب چل پڑتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہوجائے، تو معاشی استحکام محض خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں نے اپنی عاقبت نااندیشیوں اور نادانیوں کے سبب ملک کا بہت نقصان کیا ہے۔ اب حالات سنوارنے کی ضرورت ہے۔ مقروض لوگ یا قومیں فاقہ مست ہی رہتی ہیں، ترقی نہیں کرسکتیں۔ ہمیں اگر عزت سے جینا اور ترقی کرنا ہے، تو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ یہ زنجیر عوام پر مزید ٹیکس لگا کر نہیں کٹے گی۔ مراعات یافتہ طبقے سے تمام مراعات واپس لے کر ہی یہ چھٹکارا ممکن ہے۔ تمام وزرا، مشیران، ممبرانِ پارلیمنٹ، سول افسران، جج اور فوجی افسران کو مفت بجلی کی فراہمی، ٹریول ٹکٹس، مفت پٹرول اور دیگر مراعات کی فراہمی بند کی جائے۔ اُن میں سے کوئی بھی غریب نہیں، جو اپنی آمدنی میں اپنے اخراجات برداشت نہ کرسکے۔
اس طرح کابینہ کو مختصر ترین صورت میں رکھا جائے۔ تمام سیاست دان ایک گول میز کانفرنس میں اکٹھے بیٹھیں اور درجِ بالا تجاویز کی منظوری دیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کرپشن کو ناقابلِ معافی جرم قرار دے کر بدعنوانی کرنے والے کے لیے سزائے موت کے قانون کی منظوری دی جائے۔ جب تک مجرموں کو سزائیں نہیں ملیں گی، جرائم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ ذاتی مفادات کی خاطر یا کسی دوسرے کو اپنا کاندھا پیش کر کے ہمارے سیاست دانوں نے ملک کو تباہ کیا ہے۔ اب اُنھیں ہی اس ملک کو سنوارنا ہوگا۔ ملک کی تعمیر و ترقی اور معیشت کی بحالی کے لیے ’’میثاقِ وفا‘‘ کرنا ہو گا۔ یہ وفا اپنے وطن سے ہو گی۔ خلوصِ نیت سے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اپنی ایمان داری کو ثابت بھی کرنا ہوگا، تاکہ دیارِ غیر میں مقیم کوئی پاکستانی اپنے ملک کے سیلاب زدگان کو ڈوبتا چھوڑ کر ترکی کے زلزلہ زدگان کو کروڑوں ڈالر امداد دینے سے پہلے ایک بار تو ضرور سوچے۔
اگر سیاست دان ملکی معیشت کی خاطر ایک صفحے پر آ گئے اور اپنی تمام مراعات سے دست بردار ہونے کے علاوہ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات بھی ختم کر دیں، تو یہ قوم چند دنوں میں ہی اتنا سرمایہ مہیا کردے گی کہ آئی ایم جیسے عفریت کے پنجوں سے ملک نکل آئے گی۔ جب گھٹن بڑھ جائے، تو تازہ ہوا کے جھونکے کے لے کوئی کھڑکی کھولنا ضروری ہو جاتا ہے۔ میثاقِ وفا اب ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہوگیا ہے۔ اس کے لیے تمام سیاست دانوں کا ایک صفحے پر ہونا ضروری ہے۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔