پی ٹی آئی بارے سپریم کورٹ تفصیلی فیصلے کے 20 نِکات

Adv Muhammad Riaz

گذشتہ کالم ’’باہر شیر، اندر ڈھیر‘‘ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ کے چھن جانے کی بابت معروضا ت پیش کی تھیں کہ عدالت کے باہر پی ٹی آئی وکلا ٹی وی کیمروں اور مایکس کے سامنے ببر شیروں کی طرح آئینی و قانونی دلائل دے کر یہ ثابت کر رہے تھے کہ الیکشن کمیشن جان بوجھ کر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو متنازع بنا رہا ہے، جب کہ عدالت کے اندر دفاع میں پی ٹی آئی قحط الرجال کا شکار دکھائی دے رہی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے مختصر فیصلے کی رات اور اگلے چند دنوں تک یہی معزز وکلائے کرام ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوکر لمبے لمبے دلائل پیش کرتے دکھائی دیے، جب کہ عدالت میں ان معزز وکلائے کرام کو پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن ایکٹ 2017ء اور پی ٹی آئی جماعت کے اپنے آئین کے مطابق درست ثابت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف دکھائی دیا۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
بہرحال 25 جنوری کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کی بابت الیکشن کمیشن کی اپیل پر 38 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ شائع کیا گیا۔ یہ فیصلہ 20 حصوں پر مشتمل ہے۔ آیئے، تفصیلی فیصلہ کے نمایاں مندرجات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں:
٭ مقدمہ کا پس منظر اور نمایندگی:۔ شکایت کنندگان کی جانب سے اعتراضات ثابت ہونے کی بنا پر الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا الیکشن انتخابات کو کالعدم قراردیا اور اس بنا پر پی ٹی آئی انتخابی نشانے بلے سے محروم کردی گئی۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے حکم نامہ کے خلاف پشاور ہائیکورٹ سے فیصلہ حاصل کرلیا۔ بالآخر الیکشن کمیشن نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔
٭ الیکشن ایکٹ 2017ء:۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری کے ساتھ ماضی کے 8 قوانین منسوخ قرار پائے۔ سیکشن 201 کے تحت سیاسی پارٹی پر لازم ہے کہ اپنا آئین بنائے جس میں تنظیمی ڈھانچا، انٹرا پارٹی الیکشن، ممبر شپ فیس سمیت پارٹی کے دیگر معمالات بارے رہنما اُصولوں کو مرتب کرنا شامل ہے۔ سیکشن 208 کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کروانا لازم ہے۔ سیکشن 209 کے تحت پارٹی عہدے دار کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن انعقاد کا سرٹیفکیٹ کا الیکشن کمیشن میں جمع کروانا لازم ہے۔
سیکشن 215 کے مطابق انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے پارٹی کی اہلیت بشمول انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد لازم ہے۔
٭ الیکشن کمیشن کا طرزِ عمل:۔ عدالتی کارروائی کے دوران میں الیکشن کمیشن کے طرزِ عمل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا کہ آیا کمیشن نے پی ٹی آئی کو مناسب وقت دیے بغیر انتخابی نشان سے محروم کیا؟ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے نوٹس دیے گئے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کے عدم انعقاد کی صورت میں پی ٹی آئی انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل نہیں رہے گی؟
اس بابت الیکشن کمیشن کی جانب سے عدالتی متعدد دستاویز ثبوت پیش کی گئیں، جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد مرتبہ نوٹس جاری کیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد کیا جائے، ورنہ جماعت اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوجائے گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 24 مئی 2021ء اور 27 جولائی 2021ء اور 24 اگست 2021ء اور 7 مارچ 2022ء اور 16 اپریل 2022ء اور 21 مئی 2022ء اور 23 اگست 2023ء اور 13 ستمبر 2023ء کو پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی الیکشن کے انعقاد کے لیے خطوط اور نوٹس جاری کیے۔ بالآخر 23 نومبر 2023ء کو الیکشن کمیشن نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو 20 دنوں کے اندر ا نٹراپارٹی انعقاد کے لیے آخری موقع فراہم کیا، بصورتِ دیگر پارٹی پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار پائے گی۔
٭ تحریکِ انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے قانونی چارہ جوئی:۔ الیکشن کمیشن کے 23 نومبر 2023ء کے حکم نامے کے خلاف پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے برخلاف قانونی چارہ چوئی کا آغاز کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کردی اور عدالت سے درخواست کی کہ الیکشن کمیشن کے حکم نامہ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ دورانِ سماعت پی ٹی آئی نے یک رکنی بینچ کے سامنے کیس کی سماعت لارجر بینچ کے سامنے کرنے کی درخواست کردی۔ پی ٹی آئی درخواست قبول کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پنج رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ ابھی ایک درخواست لاہور ہائیکورٹ میں زیرِ سماعت تھی، مگر پی ٹی آئی نے بہ یک وقت دوسری درخواست پشاور ہائیکورٹ میں دائر کردی۔ اس طرح پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن حکم نامہ کے خلاف تیسری درخواست بھی لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردی۔ اس طرح چوتھی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں اور پانچویں درخواست پشاور ہائیکورٹ میں دائر کردی گئی۔
٭ کیا ایک فریق ایک ہی مقدمہ دو عدالتوں میں دائر کر سکتا ہے؟:۔ دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے یہ سوال اُٹھایا کہ آیا ایک فریق ایک ہی مقدمہ دو مختلف عدالتوں میں دائر کرسکتا ہے؟ ایک فریق بہ یک وقت ایک ہی معاملے کو دو عدالتوں کے سامنے نہیں لے سکتا۔ کوڈ آف سول پروسیجر 1908ء کا سیکشن 10 اس سے منع کرتا ہے ۔ یہ رٹ پٹیشن 6173/2023 کا پیراگراف 22 یہ بتاتا ہے کہ ایسے معاملات جن میں معاملہ بھی براہِ راست اور کافی حد تک پہلے سے قائم کیے گئے کیس میں ہے، وہ عدالت جس میں بعد میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے اُس کے ساتھ آگے نہیں بڑھے گی۔ اگر کوئی فریق ایک ہی معاملے کو بیک وقت دو مختلف ہائی کورٹس کے سامنے پیش کرتا ہے، تو قانون کی حکم رانی اور عدالتی عمل کو شدید نقصان پہنچے گا۔
سپریم کورٹ کا صلاح الدین ترمذی بمقابلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کیس میں پنج رکنی بنچ نے دائرۂ اختیار کے نکتہ پر فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے مطابق: الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کیا گیا حکم جو اسلام آباد میں N.W.F.P کے صوبہ کے حلقے کے حوالے سے کام کرتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ دونوں میں چیلنج کیا جائے گا۔ تاہم، یہ ہم آہنگی دائرۂ اختیار ملکیت کے اصول سے مشروط ہے، جس کے مطابق کسی معاملے میں دائرۂ اختیار رکھنے والی ہائی کورٹ نے اگر اس طرح کے دائرۂ اختیار کا استعمال کیا ہے، تو دوسری ہائی کورٹ جس کا بھی اس معاملے میں دائرۂ اختیار ہے، وہ اپنے دائرۂ اختیار کو استعمال کرنے سے روک سکتی ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  
پی ٹی آئی کی ڈی آر اُوز پر تشویش بے جا نہیں
بلے سے محرومی کے اثرات  
جنرل ضیا کے پاکستانی سیاست پر اثرات  
الیکشن 2024 بارے خفیہ اداروں کی رپورٹ 
اس کے پیشِ نظر، موجودہ کیس میں، حقیت نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بعد کے حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جانا چاہیے تھا اور پشاور ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار کو استعمال نہیں کیا جانا چاہیے تھا اور کہا کہ ہائی کورٹ کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کہ ملکیت کے سوال کا تعین کیے بغیر دائرۂ اختیار کا استعمال کریں۔ اورآئینِ پاکستان کے آرٹیکل 189 کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ، اس حد تک کہ وہ قانون کے کسی سوال کا فیصلہ کرتی ہے یا قانون کے اصول پر مبنی ہے، یا اس کا اعلان کرتی ہے، پاکستان کی دیگر تمام عدالتوں کے لیے پابند ہو گی۔
٭ جمہوریت اور آرٹیکل 17:۔ اس کیس کی جڑ میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت وہ بنیاد بھی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ اگر کسی سیاسی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے جاتے ہیں، تو وہ اپنے اراکین سے اپنے تعلقات منقطع کرلیتی ہے ، اور کسی پارٹی کو محض نام یا معنی کے بغیر پیش کر دیتی ہے۔ موجودہ صورت میں ہم انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کے طریقۂ کار اور طریقہ پر غور نہیں کر رہے ہیں۔
٭ شکایت کنندگان:۔ پی ٹی آئی پارٹی کے 14 پُرانے ارکان نے الیکشن کمیشن سے شکایت کی کہ اُن کو بطورِ امیدوار کھڑا ہونے اور ووٹ ڈالنے کے حق سے انکار کیا گیا ہے۔ مدعا علیہان پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ شکایات کنندگان پی ٹی آئی کے رکن نہیں اور نہ کسی انٹرا پارٹی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم، شکایت کنندگان نے غیر متنازع طور پر پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی اسناد اور طویل وابستگی قائم ہونا ثابت کردیا۔ موجودہ کیس میں شکایت کنندگان کی تحریک انصاف سے معطلی یا اخراج کا کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔ اس کے برعکس مسٹر اکبر ایس بابر نے متعدد دستاویزات کا حوالہ دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر بابر پی ٹی آئی کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن کی حیثیت سے ان کی حیثیت کی تصدیق کرنے والے عدالتی حکم کا بھی حوالہ دیا گیا۔
٭ انٹرا پارٹی الیکشن انعقاد کا عدم ثبوت:۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی نمایندگی کرنے والے وکلا سے بارہا مطالبہ کیا کہ وہ کسی ایسی ٹھوس چیز کا حوالہ دیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات بھی ہوئے تھے، لیکن وکلا کوئی ٹھوس شواہد پیش نہ کرسکے۔اس کے باوجود الیکشن کمیشن اور مسٹر بابر اور دیگر شکایت کنندگان نے ہماری توجہ مبذول کرائی کہ:نام زدگی فارم کی عدم موجودگی، انٹرا پارٹی الیکشن کے 91 امیدواروں کی جانب سے جمع کرائے گئے نام زدگی فارمز کی عدم موجودگی، عوامی انکشاف یا مذکورہ 91 اُمیدواروں کی اُمیدواری کا کوئی انکشاف، ثبوت کی عدم موجودگی۔ مذکورہ اکانوے اُمیدواروں نے خود کو اُمیدوار کے طور پر پیش کیا تھا، پارٹی ممبران کو اس جگہ کے بارے میں اطلاع دینے والے نوٹس/ اطلاع کی عدم موجودگی جہاں سے وہ نام زدگی فارم جمع کر سکتے ہیں، پچاس ہزار روپے کی ادائی کے ثبوت یا رسید کی عدم موجودگی، جس امیدوار کو ادا کرنا پڑا۔ تنخواہ، نوٹس/ا طلاع کی غیر موجودگی جس میں اُمیدواروں کو مطلع کیا گیا تھا کہ 50 ہزار روپے کی لاگو فیس کی ادائی کیسے اور کہاں کی جائے گی/ جمع کی جائے گی، پی ٹی آئی کے اکاونٹ میں 40 لاکھ، 50 ہزار روپے جمع ہونے کے ثبوت کی عدم موجودگی جو کہ ہونا چاہیے تھا۔ انتخابی شیڈول کے حوالے سے عوامی نوٹس کی عدم موجودگی، انتخابی مقام کے حوالے سے عوامی نوٹس کی عدم موجودگی۔ اسی طرح عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی موجودگی میں پی ٹی آئی کی آفیشل ویب سائٹ تک رسائی کا کہا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا مذکورہ معلومات اس پر پوسٹ کی گئی ہیں، لیکن وہاں بھی ایسا نہیں تھا۔ مقابلہ کرنے والے جواب دہندگان کی طرف سے مذکورہ الزامات/ تنازعات کی تردید نہیں کی گئی۔ اس کی بجائے اُنھوں نے ایک دستاویز کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات پشاور میں ہونے تھے، لیکن اس میں جگہ کا ذکر نہیں تھا اور الیکشن کمیشن کے پوچھے جانے پر بھی انکشاف نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی وکلا نے بتایا کہ انتخابات کے انعقاد کی جگہ پشاور کے قریب ایک گاؤں چمکنی میں تبدیل کر دی گئی، لیکن اس حوالے سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور نہ پی ٹی آئی کے ممبران/ووٹرز کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔ اس طرح یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہیں ہوئے۔ اور، پی ٹی آئی کے ارکان کو انٹراپارٹی الیکشن لڑنے اور اُمیدواروں کو ووٹ دینے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا گیا۔
٭ بلامقابلہ انتخاب:۔ عدالت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ اگر کوئی فرد بلامقابلہ آتا ہے، تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے منتخب نہیں کیا گیا ہے، لیکن اگر انتخابات ہوئے بغیر کسی ثبوت کے سب کو بلا مقابلہ منتخب کر لیا گیا، تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ عمر ایوب خان خود کو پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر بیان کرتے ہیں، لیکن کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ اُنھوں نے یہ اہم عہدہ کیسے سنبھالا؟ گوہر علی خان خود کو پی ٹی آئی کا چیئرمین بتاتے ہیں، لیکن اُن کے معاملے میں بھی ریکارڈ پر ایسا کچھ بھی قابلِ اعتبار مواد موجود نہیں، جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ اُنھوں نے کس طرح چیئرمین بننے کا دعوا کیا تھا، اور خود کو عمران احمد خان نیازی کا جانشین بنالیا۔ ایک بار جب یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تو جائز سوالات اُٹھتے ہیں کہ پارٹی کے اہم دفاتر پر کس طرح قبضہ کیا جا رہا ہے۔
٭ پی ٹی آئی کے اراکین کو حقِ رائے دہی سے محروم کر دیا گیا:۔ پی ٹی آئی وکلا نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے تقریباً 8 لاکھ 50 ہزار ممبران ہیں۔ لہٰذا، اگر پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہوئے، تو سبھی حقِ رائے دہی سے محروم ہو گئے۔ آئین کے آرٹیکل 17 (2) میں درج بنیادی حق سیاسی جماعتیں بنانے کا حق حاصل کرتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کو انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، تو خود کو بطورِ امیدوار پیش کرنے، الیکشن لڑنے اور اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دینے کے اُن کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔
الیکشن کمیشن نے بارہا مطالبہ کیا اورپی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کی ہدایت کی، لیکن اُس کی درخواستوں اور ہدایات کو نظر انداز کیا گیا۔ حقائق پر مبنی معاملے کے حوالے سے بار بار عدالتوں کا سہارا لینا پڑا۔ آیا پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گئے ؟
٭ کیا یہ مقدمہ قابلِ سماعت ہے؟:۔ معروف سینئر وکیل جناب حامد خان نے الیکشن کمیشن کی اس پٹیشن کے قابلِ سماعت ہونے پر سوال اُٹھایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کوئی ناراض فریق نہیں ہوسکتا جو پٹیشن دائر کرسکے۔ اِس بابت اُنھوں نے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ بمقابلہ ایس این جی پی ایل اور اے رحیم فوڈز (پرائیویٹ) لمیٹڈ بمقابلہ کے اینڈ این فوڈز (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے مقدمات کو بطورِ نظائر پیش کیا۔ اس کے جواب میں الیکشن کمیشن کے سینئر وکیل جناب مخدوم علی خان نے عرض کیا کہ مذکورہ بالا کیس قانونی اداروں کے حوالہ سے ہیں اور یہ الیکشن کمیشن پر لاگو نہیں ہوتے، جو ایک آئینی ادارہ تھا۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ اگر ہائی کورٹ نے اپنے دائرۂ اختیار کا غلط استعمال کیا ہے، یا قانون کے خلاف کوئی حکم جاری کیا ہے، تو الیکشن کمیشن کو اس عدالت کے سامنے اپنے اختیارات کے دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے وکیل نے صلاح الدین ترمذی بمقابلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور محمد حنیف عباسی بمقابلہ عمران خان نیازی کو بطورِ نظائر پیش کیا۔ پی ٹی آئی کی نمایندگی کرنے والے ماہر وکلا مذکورہ کیسوں اور نہ خود الیکشن کمیشن کی طرف سے اس عدالت ہی میں دائر کیے گئے مقدمات کو متنازع بناسکے۔ کسی فیصلے کا حوالہ نہیں دیا گیا، جہاں الیکشن کمیشن کو ایک پٹیشن/ اپیل دائر کرنے کے قابل نہ رکھا گیا ہو۔ اگر الیکشن کمیشن کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، تو یہ انصاف سے انکار اور صریحاً غیر منصفانہ ہوگا۔ اگر وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر جوابی کارروائی یعنی سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرے۔ لہٰذا، اس پٹیشن کے برقرار رہنے پر اعتراض قانونی مواد کے بغیر اور اسے مسترد کر دیا گیا ہے۔
٭ الیکشن کمیشن پر بدنیتی کے الزامات:۔ پی ٹی آئی کی نمایندگی کرنے والے وکلا نے ابتدائی طور پر الزام لگایا تھا کہ ای سی پی کے اقدامات قانون اور حقیقت میں غلط تھے، لیکن جب ہم نے وکلا سے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن، اس کے کمشنر اور ممبران کی بددیانتی کا ثبوت دیں، تو پی ٹی آئی وکلا نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام واپس لے لیا۔ اس معاملے کے بارے میں ہمارے اپنے آزادانہ تجزیے میں ایسا کچھ نہیں دکھایا گیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ الیکشن کمیشن نے بدنیتی سے کام کیا۔ بدعنوانی کے الزام کو مزید اس وقت ختم کردیا گیا جب یہ نوٹ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اسی طرح کے نوٹس جاری کیے تھے۔ جب الیکشن کمیشن نے سب سے پہلے نوٹس لیا کہ پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، تو پی ٹی آئی جماعت وفاقی اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں حکم ران تھی۔
٭ الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض:۔ آئینِ پاکستان کے مطابق کمیشن کو ذمے داری سونپی جائے گی:
(الف) قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں کی تیاری، اور ان فہرستوں کو اَپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً نظر ثانی کرنا۔
(ب) سینیٹ کے انتخابات کا انعقاد اور انعقاد یا کسی ایوان یا صوبائی اسمبلی میں خالی آسامیوں کو پُر کرنا۔
(ج) الیکشن ٹربیونلز کا تقرر۔
(د) قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں کے عام انتخابات کا انعقاد، اور (ای) ایسے دیگر افعال جن کی وضاحت پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے کی جا سکتی ہے: بشرط یہ کہ اس وقت تک جب تک کمیشن کے ممبران کا تقرر آرٹیکل 218 کی شق (2) کے پیراگراف (b) کی دفعات کے مطابق نہیں کیا جاتا۔
آئین (18ویں ترمیم) ایکٹ، 2010ء کے مطابق، اور اپنے دفتر میں داخل ہونے پر، کمشنر اس آرٹیکل کے پیراگراف (a)، (b) اور (c) میں درج فرائض کے ذمے دار رہیں گے ۔
٭ الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق کام کیا:۔ ریکارڈ سے واضح ہے کہ الیکشن کمیشن نے قانون کے خلاف اور من مانی سے کام نہیں لیا۔ الیکشن کمیشن نے مسلسل اور بار بار پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔ ابتدائی طور پر انتخابات نہ کرانے کے لیے کووِڈ 19 وائرس کے پھیلاو کا بہانہ استعمال کیا گیا اور الیکشن کمیشن سے ایک سال کی توسیع مانگی گئی۔ الیکشن کمیشن نے مدت میں توسیع کر دی، وہ مدت بھی ختم ہو گئی…… لیکن پھر بھی انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوسکے۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے بار بار مواقع دیے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کیا، لیکن اُس کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک حکم جاری کیا اور ہدایت کی کہ پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں، جس کے جواب میں، اور بغیر کسی معقول وجہ کے، اس ہدایت کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اور جب کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا، تو پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے معاملات کی سربراہی کرنے والوں نے قانون کو نظر انداز کیا۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات نے ان سے قانون کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا اور بار بار درخواستیں/ اپیل پہلے ایک ہائی کورٹ میں پھر دوسری ہائی کورٹ میں دائر کیں۔
٭ آئین کا آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ:۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کی گزارشات کا بنیادی زور یہ تھا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 17 (2) پر انحصار کرتے ہوئے یہ دعوا کریں کہ سیاسی جماعت بنانے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے اور اس عدالت نے گذشتہ برسوں میں آرٹیکل 17 (2) کی مضبوطی سے تشریح کی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی سیاسی جماعت ایک نشان کے تحت الیکشن لڑسکے اور کسی بھی غیر معقول پابندی کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یہ بات اہم ہے کہ مذکورہ پانچ کیسوں میں سے کسی میں بھی، اور نہ ہمارے سامنے ہی، الیکشن ایکٹ کی کسی شق کی آئینی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے پاکستان کے قوانین کی پاس داری ہونی چاہیے، بشمول اعلا عدالتوں کے جج، جن کے عہدے کا حلف بھی اُن کی پاس داری کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تک کہ کسی قانون یا اُس کی کوئی شق کو چیلنج نہ کیا جائے اور اُسے آئین سے متصادم قرار دیا جائے اور اُسے غیر آئینی قرار دیا جائے، اُسے نافذ العمل ہونا چاہیے۔ الیکشن ایکٹ 2 اکتوبر 2017ء کو قانون بن گیا اور پچھلے چھے سالوں کے دوران میں اس کو یا اس کی کسی شق کے حوالے سے چیلنج نہیں کیا گیا۔
٭ بے نظیر بھٹو کیس:۔ طرفین کے وکلا نے اپنے اپنے دلائل کی حمایت میں بے نظیر بھٹو کیس پر انحصار کیا۔ ہمارے سامنے کیس حقائق اور قانون دونوں لحاظ سے بے نظیر بھٹو کیس سے بالکل مختلف ہے۔ سب سے پہلے زیرِ غور قانون الیکشن ایکٹ ہے، جسے جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ نے نافذ کیا تھا۔ اس کے برعکس "ROPA” میں کی گئی ناگوار ترامیم ایک فرد کی طرف سے کی گئی تھیں۔
دوسرا، الیکشن ایکٹ سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا تقاضا کرتا ہے کہ عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے جائیں۔
تیسرا، الیکشن ایکٹ سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ حکم دیتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جائیں۔
چوتھا، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سیاسی جماعتیں جمہوری ہیں اور رہیں، ان کے اراکین کو اس کے سیاسی دفاتر کی خواہش کرنے کا مساوی موقع دیا جانا چاہیے۔
پانچواں، اگر کوئی سیاسی جماعت وقتاً فوقتاً انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی، تو ان کے نہ کرانے کے نتائج اس میں بیان کیے گئے ہیں، جو کہ پارٹی اپنا انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل نہیں۔ ہم بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے سے مکمل متفق ہیں، اور اسی استدلال پر بھروسا کرتے ہوئے، جیسا کہ اس میں استعمال کیا گیا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت بھی قائم ہوجاتی ہے ۔
٭ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کس نے کروایا؟:۔ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کے نتیجے میں انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے نااہل ہو گئی۔ جس کی واحد ذمے داری پی ٹی آئی کے معاملات چلانے والوں پر عاید ہوتی ہے جو پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے یک طرفہ اور من مانی طور پر پی ٹی آئی کے 8 لاکھ 50 ہزار بیان کردہ اراکین کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت پر قبضہ کرلیا۔ ان کے اعمال کی وجہ سے اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتے ہوئے یعنی انتخابات نہ کروانے سے پارٹی کو نقصان اُٹھانا پڑا اور وہ اپنا انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دی گئی۔ کسی سیاسی جماعت کو کسی معمولی خلاف ورزی پر اس کے انتخابی نشان سے کبھی محروم نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن انٹرا پارٹی انتخابات کو ترک کرنا قانون اور آئین کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ پی ٹی آئی کے انچارج انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر بہ ضد تھے اور صرف ان کی ہٹ دھرمی نے پی ٹی آئی کو اس کے نشان سے محروم کردیا۔ اگر انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جاتے، تو الیکشن ایکٹ میں بیان کردہ تمام فوائد حاصل ہوتے ، بشمول پارٹی کو اس کے نشانات ملنا۔
٭ انٹرا پارٹی الیکشن کی اہمیت:۔ انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت، جسے پرائمری انتخابات (پرائمری) کہا جاتا ہے، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مسلسل بیان کیا جاتا رہا ہے۔
٭ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ:۔ ہائی کورٹ کے سامنے معاملہ کاغذ کے ٹکڑے یعنی سرٹیفکیٹ کی فراہمی سے متعلق نہیں تھا بلکہ یہ تھا کہ کیا پی ٹی آئی میں انتخابات ہوئے ہیں۔ اگر، انٹرا پارٹی انتخابات نہیں ہوئے، تو ایک خودساختہ سرٹیفکیٹ کی فراہمی، جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات ہوئے ہیں، کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، اور یہ بھی دھوکا دہی پر مبنی ہوگا۔ پشاور ہائیکورٹ فیصلے نے تحریری پٹیشن 287/2024 لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کیا تھا، اور اپیل میں فیصلے کا انتظار نہیں کیا تھا جس کے خلاف ترجیح دی گئی تھی۔ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے رٹ پٹیشن 5791/2021 میں درخواست گزاروں کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے پیش ہونے کا حکم کیوں دیا جب کہ صرف 20 دن بعد اسی عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن آ ف پاکستان قانون کے تحت کچھ نہیں کر سکتا۔
٭ نتیجہ:۔ مذکورہ بالا وجوہات ہیں کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا حکم مورخہ 22 دسمبر 2023ء کو برقرار رکھا گیا۔ ہم پشاور ہائی کورٹ کے معزز ججوں سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ الیکشن کمیشن کے پا س کسی سیاسی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال کرنے یا فیصلہ کرنے کا کوئی دائرۂ اختیار نہیں۔ اگر اس طرح کی تشریح کو قبول کر لیا جاتا ہے، تو یہ الیکشن ایکٹ میں تمام دفعات لاگو ہوجائے گی۔ پشاور ہائیکورٹ کے ججوں کی اس تشریح کی بہ دولت پھر انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کی کوئی ضرورت نہیں۔جمہوریت نے پاکستان کی بنیاد رکھی، جس کا ایک بنیادی پہلو سیاسی جماعت کے اندر اور عام انتخابات دونوں میں خود کو امیدوار کے طور پر آگے لانے اور ووٹ ڈالنے کے قابل ہونا ہے۔ اس سے کم کچھ بھی آمریت کو جنم دے گا جو آمریت کا باعث بن سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سے 24 مئی 2021ء سے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اُس وقت پی ٹی آئی کی وفاق میں اور کچھ صوبوں میں حکومت تھی۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو نشانہ بنا رہا تھا۔ بہر حال، ہم اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے تھے کہ الیکشن کمیشن نے بددیانتی سے کام نہیں لیا، نہ غلط وجوہات ہی کی بنا پر یا پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ یہ ظاہر ہوا کہ الیکشن کمیشن نے 13 دیگر رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے خلاف احکامات جاری کیے ہیں، جو پی ٹی آئی کے خلاف جاری کیے گئے حکم سے کہیں زیادہ سخت تھے۔ ایسا ہی ایک کیس، آل پاکستان مسلم لیگ کا، اس عدالت کے سامنے 12 جنوری 2024ء کو آیا اور الیکشن کمیشن کے حکم کو برقرار رکھا گیا، جس میں مذکورہ سیاسی جماعت کو ڈی لسٹ کیا گیااور پارٹی آئین کے تحت انٹراپارٹی انتخابات پر کیا جاتا، تو یقینی بات ہے کہ پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی میں انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کے نتیجے میں وہ انتخابی نشان الاٹ کرنے کے لیے نااہل ہوگئی۔ جس کی واحد ذمے داری پی ٹی آئی کے معاملات چلانے والوں پر عاید ہوتی ہے جو پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے تھے۔ اُنھوں نے یک طرفہ اور من مانی طور پر پی ٹی آئی کے 8 لاکھ 50 ہزار بیان کردہ اراکین کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت پر قبضہ کرلیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے