سیاسی منظر نامے پر زیرِبحث موضوع پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ ہے۔
خبرآتی ہے کہ پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا۔دوسرے دن بلے کا نشان پی ٹی آئی کو واپس مل گیا۔ طرفین کی سیاسی جماعتیں بلے کے نشان پر ہونے والی پیش رفت پر اپنا اپنا راگ الاپ رہی ہیں۔ پاکستانی سیاست میں انتخابی نشان بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے من پسند انتخابی نشان کے حصول کے لیے اپنا تن من دھن وارتی دکھائی دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان کے حصول کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کا باب نمبر 12 بہترین طریقے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 214 کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں اور اُمیدواروں کو الاٹ کرنے کے لیے مخصوص انتخابی نشانات کی فہرست تیار کرتا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن21 5(1) کے مطابق الیکشن ایکٹ کے سیکشن 202، 206، 209 اور 210 میں درج شرائط پر پورا اُترنے والی سیاسی جماعت ہی اپنے پسندیدہ انتخابی نشان کے حصول کے لیے اہل قرار پاتی ہیں۔
سیکشن 202 کے تحت سیاسی جماعت کا انتخابات میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن / اندارج ہونا لازم ہے۔
سیکشن 206کے تحت سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے امیدواروں کا انتخاب ایک شفاف اور جمہوری طریقۂ کار کے ذریعے کرنا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ عام نشستوں پر اُمیدواروں کا انتخاب کرتے وقت خواتین اُمیدواروں کی کم از کم پانچ فی صد نمایندگی کو یقینی بنانا لازم ہے۔ سیکشن 209 کے تحت ایک سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات کی تکمیل کے 7 دنوں کے اندر، پارٹی کے سربراہ کی طرف سے دستخط شدہ سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن کو جمع کروانالازم ہے، جب کہ سیکشن 210 کے تحت ایک سیاسی جماعت کو مالی سال کے اختتام سے 60 دنوں کے اندر چارٹرڈ اکاونٹینٹ سے آڈٹ شدہ سٹیٹمنٹ کو الیکشن کمیشن کو جمع کروانا لازم ہے۔ اُس سٹیٹمنٹ میں یہ ڈی کلریشن دینا بھی لازم ہے کہ کسی قسم کے ممنوعہ ذرائع سے کوئی فنڈز سیاسی جماعت کو موصول نہیں ہوئے۔
سیکشن 215 (2) کے تحت سیاسی جماعتوں کا مجموعہ/ الائنس جیسا کہ ماضی میں متحدہ مجلس عمل اس صورت میں انتخاب کے لیے ایک متفقہ انتخابی نشان حاصل کر سکتا ہے، جس طرح متحدہ مجلس عمل میں تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ’’کتاب‘‘ کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا تھا…… مگر شرط یہ ہے کہ الائنس میں شامل ہر سیاسی جماعت سیکشن 202، 206، 209 اور 210 میں بیان کردہ سرٹیفکیٹ اور گوشوارے جمع کرائے۔
سیکشن 215 (3) کے تحت کسی سیاسی جماعت کو پہلے سے مختص کردہ انتخابی نشان کسی دوسری سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کے مجموعہ/ الائنس کو الاٹ نہیں کیا جائے گا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 216 کے مطابق سیاسی جماعت عام انتخابات کے لیے اپنی پسند کا انتخابی نشان حاصل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دیتی ہے۔ اور یہ درخواست درجِ ذیل معلومات پر مشتمل ہونی چاہیے:
دیگر متعلقہ مضامین:
سیاست دانوں کو بدنام کرنا مسئلے کا حل نہیں
غیر منطقی طور پر سیاست زدہ معاشرہ
سیاست میں مذہبی ٹچ
مخاصمت کی سیاست میں کسی کا بھلا نہیں
یہ ہے ہماری سیاست
٭ ترجیح کے لحاظ سے درخواست کردہ انتخابی نشانوں کی فہرست۔
٭ انتخابی نشان اگر سیاسی جماعت کو پچھلے عام انتخابات کے دوران میں الاٹ کیا گیا ہو۔
٭ ایسی ہر درخواست پر پارٹی سربراہ کے دستخط ہوں گے۔
٭ سیاسی جماعت کے ہیڈ آفس کا پتا۔
٭ سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی دیگر تفصیلات یا مطلوبہ معلومات جو الیکشن کمیشن تجویز کرتا ہے۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 217 کے تحت الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔ اگر سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کے درج بالا سیکشنوں کی تعمیل کرتی ہے۔ اس کے بعد سیاسی جماعت کی طرف سے کسی بھی حلقے میں انتخاب کے لیے نام زد کردہ امیدوار کو ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے اس سیاسی جماعت کو الاٹ کردہ نشان الاٹ کیا جائے گا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے کسی سیاسی جماعت کو الاٹ کیا گیا نشان اُس سیاسی جماعت کے نام زد کردہ امیدوار کے علاوہ حلقے میں کسی اور ا میدوار کو الاٹ نہیں کیا جائے گا۔ کمیشن کی ہدایت کے تابع، ضمنی انتخاب میں، ریٹرننگ آفیسر سیاسی جماعت کے نام زد کردہ امیدوار کو پچھلے عام انتخابات میں اس سیاسی جماعت کو الاٹ کردہ نشان الاٹ کرے گا۔ ریٹرننگ آفیسر ایک حلقے میں ہونے والے انتخابات میں ہر امیدوار کو واضح اور مختلف انتخابی نشان الاٹ کرے گا۔
الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 218 کے تحت سیاسی جماعت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اُسی نشان کی الاٹمنٹ کا دعوا کرے، جو اُسے کسی بھی پچھلے انتخابات میں مختص کیا گیا تھا۔ سیاسی جماعت کو مخصوص نشان کی الاٹمنٹ کے لیے ترجیح دی جائے گی کہ ایسا نشان اُسے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے سے پہلے پچھلے انتخابات میں دیا گیا تھا۔
یاد رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 202، 206، 209 اور 210 کے تابع سیاسی جماعت سے مطلوبہ سرٹیفکیٹس اور گوشوارے جمع کروانے اور جانچ پڑتال کے بعد ہی انتخابی نشان الاٹ کرتا ہے۔ بصورتِ دیگرالیکشن کمیشن آف پاکستان حال ہی میں پی ٹی آئی کے انٹراالیکشن میں مبینہ طور پر پائی جانے والی بے ضابطگیوں کی بنا پر انتخابی نشان الاٹ جاری کرنے سے روک بھی سکتا ہے۔
بہرحال پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو انتخابی نشان واپس تو مل چکا ہے، مگر الیکشن کمیشن یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جاچکا ہے۔ سپریم کورٹ کا سہ رکنی بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بنچ کی سربراہی کریں گے۔
الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت 2 جنوری 2024ء کو ہوگی۔ انتخابی نشان الاٹ نہ کرنے پر الیکشن کمیشن حق بجانب ہے یا پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی……؟ چوں کہ یہ معاملہ عدالتِ عظمیٰ میں زیر سماعت ہے، لہٰذا حتمی فیصلہ آنے تک مزید تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔