زمبابوے ایک افریقی ملک ہے۔ 11 نومبر 1965ء کو برطانیہ سے آزاد ہوا لیکن اس کی خودمختاری کو 15 برس بعد 18 اپریل 1980ء کو تسلیم کیا گیا۔ آبادی کے تناسب سے دنیا کا 73واں جبکہ رقبے کے اعتبار سے 60واں بڑا ملک ہے۔ انگریزی کو ملا کر کل 16 زبانوں کو دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ 1980ء سے لیکر اب تک زمبابوے کی خودمختاری کو 37 سال گزر چکے ہیں جبکہ اس طویل عرصے کے دوران میں صرف ایک ہی لیڈر رابرٹ موگابے کی حکمرانی رہی۔ وہ 1980ء کو الیکشن کے ذریعے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے جبکہ 1987ء کو ملک کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور تب سے لے کر اب تک اسی عہدے پر براجمان ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے زمبابوے کے نائب صدر ایمرسن منانگاگوا کو اس غرض سے اپنے عہدے سے برطرف کیا کہ صدارت اپنی ہمسفر گریس موگابے کو سونپی جا سکے جبکہ اس اقدام کے بعد وہ عوام کی شدید تنقید کی زد میں تھے۔ صدر کے حامی ان کے اس اقدام سے پُرعزم دکھائی دے رہے تھے۔ ملک کے فوجی سربراہ نے بھی اس اقدام کیلئے اپنے ایک بیان میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک غیر جمہوری اقدام ہے کہ ملک کے نائب صدر کو بنا کسی ٹھوس وجوہات کے عہدے سے برطرف کیا جائے جبکہ ایسا کرنے پر صدر نے فوجی سربراہ کو بغاوت کا مرتکب قرار دیا تھا جس کے بعد فوج اور حکومت کے درمیان تعلقات بگڑتے چلے گئے۔اس کے بعد فوج اور صدر کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ فوج نے ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کو سڑکوں پر اُتارا اور حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اب ’’ہرارے‘‘ اور دیگر بڑے شہروں میں فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ سرکاری ٹی وی چینل کے ہیڈ کوارٹر اور دیگر مرکزی دفاتر پر بھی قبضہ جما لیا گیا ہے۔ دارالحکومت اور ملک کے مزید علاقوں اور مرکزی دفاتر کی طرف فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔
اس کارروائی کے دوران میں بہت سے لوگوں کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ گرفتاریاں صرف ان لوگوں کی ہو رہی ہیں جو جرائم پیشہ ہیں، اور جن سے انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے، ملک کی سلامتی، معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم دینے والے ہیں۔ صدر کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک اور فوج کے قبضے میں ہیں، جنہیں نظر بند کیا گیا ہے جبکہ فوج کے ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ حالات بالکل ٹھیک اور مکمل کنٹرول میں ہیں۔
اس دوران میں مختلف جگہوں سے دھماکوں کے آوازیں بھی سنی گئ ہیں لیکن فوج کی جانب سے ان کے متعلق کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔
حالات کشیدہ ہونے کے سبب امریکہ اور کچھ دیگر ممالک نے ملک میں اپنے سفارتخانے بھی بند کر دیے ہیں اور شہریوں کو حالات معمول کے مطابق آنے تک اپنے گھروں اور محفوظ مقامات پر رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس طرح ایک اور ملک نامعلوم وقت تک فوجی حکمرانی کے لپیٹ میں آگیا جس کے نتیجے میں وہ ملک جو پہلے سے ہی کئی مسائل سے دوچار تھا، اب مزید اس دلدل میں پھنسے کا خطرہ ہے۔
………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔