پاکستانی سیاست کے بدلتے رنگ

Blogger Syed Shahid Abbas Kazmi

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر قانونی مقدمات، احتجاجی مظاہروں اور باہمی کشمکش کے گرد گھوم رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ’’توشہ خانہ ٹو کیس‘‘ نے سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے۔ اس کیس میں بانئی تحریکِ انصاف عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فردِ جرم عائد کی جاچکی ہے اور استغاثہ کے گواہوں کو طلب کر کے بیان ریکارڈ کرنے کا عمل 18 دسمبر 2024ء تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ اگر بشریٰ بی بی تحقیقات میں تعاون نہیں کرتی، یا ضمانت کا غلط استعمال کرتی ہیں، تو ٹرائل کورٹ کو اُن کی ضمانت منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔ یہ صورتِ حال ایک اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں تحریکِ انصاف کو اپنے سیاسی اور قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
توشہ خانہ کیس، جس کی سماعت سپیشل جج سنٹرل اسلام آباد شاہ رخ ارجمند نے اڈیالہ جیل کے کمرائے عدالت میں کی، تحریکِ انصاف کی قیادت کے لیے ایک سنجیدہ امتحان بن چکا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ وہ قانونی ضوابط کے تحت ضمانت منسوخ کرسکے، بہ شرط یہ کہ عدالت کو لگے کہ ملزم تعاون نہیں کر رہا، یا عدالتی نظام کا استحصال کر رہا ہے۔ اس قانونی عمل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کسی بھی فریق کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جا سکتا اور عدالتی عمل کی مکمل پاس داری ہی ایک مستحکم نظام کا ضامن ہوسکتی ہے۔
تحریکِ انصاف، جو کبھی پاکستان کی سب سے مقبول جماعت تھی، آج قانونی اور سیاسی چیلنجوں کے بھنور میں گھری ہوئی ہے۔ کیسوں کی بڑھتی ہوئی فہرست اور عدالتی کاروائیوں کے دباو نے جماعت کو ایک نازک صورتِ حال میں دھکیل دیا ہے۔ صرف یہی نہیں، بل کہ 24 نومبر 2024ء کے احتجاج کو غلط انداز سے منظم کرنے کی وجہ سے تحریکِ انصاف کو شدید سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس احتجاج کے دوران میں نہ صرف حکمتِ عملی کی کمی واضح ہوئی، بل کہ عوامی حمایت بھی کم زور پڑتی نظر آئی۔
یہاں یہ بات واضح طور پر سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی احتجاج کے دوران میں تشدد ایک ایسا عمل ہے، جو عوامی حمایت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ریاست کو مداخلت پر مجبور کر دیتا ہے۔ پُرتشدد احتجاج نہ صرف سیاسی جد و جہد کے اخلاقی اُصولوں کو مجروح کرتا ہے، بل کہ یہ ریاست کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے، جس کا جواب وہ اپنی قانونی اور آئینی ذمے داری کے تحت دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ ریاستی ردِعمل اکثر سخت ہوتا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی حکومت کے لیے یہ قابلِ قبول نہیں کہ امن و امان کو خطرے میں ڈالا جائے یا عوامی زندگی متاثر ہو۔
تحریکِ انصاف کے حالیہ احتجاج میں جو پُرتشدد مناظر دیکھنے کو ملے، اُنھوں نے عوام اور حکومت دونوں کے لیے ایک مشکل صورتِ حال پیدا کر دی۔ مظاہروں کے دوران میں سرکاری اور نجی اِملاک کو نقصان پہنچانا، عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنا اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں کسی بھی جمہوری جد و جہد کا حصہ نہیں ہوسکتیں۔ ایسے واقعات نہ صرف تحریک کے مقصد کو نقصان پہنچاتے ہیں، بل کہ عوام میں خوف اور بے چینی پیدا کرتے ہیں، جو کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں مفاہمت کا تصور ہمیشہ ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات اور باہمی عدم اعتماد کی وجہ سے مفاہمت کے امکانات اکثر معدوم ہو جاتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، جب پاکستان کو شدید معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے، مفاہمت کی سیاست وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔
تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد مکالمے کی ضرورت ہے۔ عمران خان، جو کبھی پاکستان کے مقبول ترین رہ نما تصور کیے جاتے تھے، اَب بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اپنی جماعت کو مثبت سیاست کی طرف گام زن کریں۔ اگر تحریکِ انصاف عدالتی معاملات میں شفافیت کے ساتھ تعاون کرے اور اپنے سیاسی نظریے میں عوامی مفاد کو ترجیح دے، تو یہ نہ صرف پارٹی کے لیے، بل کہ ملک کے لیے بھی ایک مثبت قدم ہوگا۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے، جہاں سیاسی جماعتوں کی باہمی کش مہ کش نے عوامی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل عوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوچکے ہیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر ملک کے مفاد میں متحد ہوں۔ تحریکِ انصاف اور حکومت دونوں کو چاہیے کہ وہ مل کر ایک ایسی حکمتِ عملی وضع کریں جو پاکستان کو ان بحرانوں سے نکال سکے۔
تمام سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ذاتی ایجنڈے کو قومی مفادات پر ترجیح نہ دیں۔ ملک کی ترقی کے لیے ایک مشترکہ لائحۂ عمل تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف، جو عوامی حمایت سے اقتدار میں آئی تھی، کو چاہیے کہ وہ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی مسائل کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ تصفیہ ایک ایسا عمل ہے، جو وقتی طور پر اختلافات کو ختم کرکے ایک وسیع تر مقصد کے لیے اتحاد کی راہ ہم وار کرتا ہے۔ تحریکِ انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بھلا کر تصفیہ کی سیاست کو اپنائیں۔ عمران خان کو بہ طور قائد اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اُن کی جماعت صرف مخالفت کی سیاست تک محدود نہ رہے، بل کہ تعمیری سیاست کا راستہ اپنائے۔
تصفیہ کی سیاست نہ صرف سیاسی استحکام لانے میں مدد دے سکتی ہے، بل کہ یہ عوام کا اعتماد بہ حال کرنے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنی حکمتِ عملی پر نظرِثانی کرے اور عدالتی عمل کا احترام کرتے ہوئے قومی مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھائے۔
عدلیہ پاکستان کے آئینی نظام کا ایک اہم ستون ہے، اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہر سیاسی جماعت کی ذمے داری ہے۔ تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنے عدالتی معاملات کو شفافیت کے ساتھ حل کرے اور قانون کا احترام کرے۔ توشہ خانہ کیس کے موجودہ حالات میں، اگر تحریکِ انصاف قانونی محاذ پر ذمے داری کا مظاہرہ کرتی ہے، تو یہ نہ صرف جماعت کی ساکھ کو بہتر کرے گا، بل کہ عوامی حمایت بھی حاصل کرے گا۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں مل بیٹھیں۔ توشہ خانہ کیس اور اس کے گرد پیدا ہونے والے سیاسی حالات نے تحریکِ انصاف کے لیے ایک اہم سبق دیا ہے کہ قانون کی پاس داری اور عوامی خدمت ہی کام یاب سیاست کا اصل راستہ ہیں۔
تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ عدالتی عمل کا احترام کرے اور عوامی مفادات کو ترجیح دے۔ اگر عمران خان اور اُن کی جماعت مُثبت سیاست کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، تو یہ پاکستان کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ مفاہمت، تصفیہ اور تعاون کے ذریعے ہی پاکستان کو ان چیلنجوں سے نکالا جاسکتا ہے اور ترقی کی راہ پر گام زن کیا جا سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے