سولہویں صدی عیسوی کی ابتدائی سالوں میں افغان مغل رسہ کشی نے جنم لیا۔ افغانوں کی آپس میں ناچاقی اور بے اتفاقی نے مغلوں کو برصغیر کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا۔ پھر بھی سلطنت مغلیہ کو افغانوں کے ہاتھوں ایک لمحہ کے لیے آرام کی نیند نصیب نہیں ہوسکی اور دونوں قوموں کی یہ چپقلش مغل زوال تک مسلسل جاری رہی۔
1738ء میں ایران کے نادرشاہ نے کابل کے مغل گورنر کو شکست دے کر کابل پر قبضہ کرلیا لیکن صوبۂ کابل واپس اُسے بہ طور جاگیر رکھنے کی اجازت دے دی۔
نادرشاہ کی وفات پر 1745ء میں احمد شاہ ابدالی قندہار کے تخت پر براجمان ہوئے اور سارے صوبہ پختون خوا کا الحاق افغانستان سے کراکے کوزہ اور برہ پختون خوا پر پشتونوں کی حکومت رہی۔
احمدشاہ ابدالی کی وفات پر آپ کا بیٹا تیمور شاہ تخت نشین ہوا لیکن اس کی نااہلی کے سبب مرکزی حکومت کمزور پڑگئی۔ مقامی سرداروں نے جگہ جگہ بغاوتیں کرکے آزادی اور خودمختاری کا اعلان کیا اور ملک چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ گیا۔ ان حالات نے سکھوں کے لیے راستہ ہموار کیا اور آخر کار 1818ء کو انھوں نے عملی طور پر پختون خوا میں پنجے گاڑ دیئے۔
……………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔