2 9 اکتوبر کو بعد از دوپہر ابوہا سے چلے سوئے مرغزار۔ کئی سال بعد اس سحر آنگیز گوشۂ عافیت کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہاں چند لمحے گزار کر عہدِ گذشتہ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ کچھ ماضی کی جھلکیاں آپ کے ساتھ بھی شیئر کرتا چلوں۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
میاں گل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب کو ایک دفعہ سفید محل (وائٹ پیلس) میں بیٹھے دیکھا۔ سنگِ مرمر کی میز پر قرآنِ شریف کا بڑے سائز کا نسخہ مبارک کھلا پڑا تھا۔ وہ تلاوت میں مصروف تھے۔ کچھ فاصلے پر دو گارڈ کھڑے تھے۔ بہت سے مقامی اور باہر کے سیاح آزادی سے گھوم پھر رہے تھے۔ نہ کوئی ’’انٹری فیس‘‘ نہ کوئی روک ٹوک۔ ایسے میں پنجاب کی کسی کالج کی لڑکیوں کا گروپ آیا۔ اُن کو پتا چلا، تو بادشاہ صاحب کے اردگرد کھڑی ہوگئیں۔ بادشاہ صاحب نے خندہ پیشانی سے اُن کے ساتھ گروپ فوٹو اُتروائے۔
ایک اور بات یاد آگئی۔ یہ جو مشہور پشتو سنگر تھے ہدایت اللہ نام کے۔ یہ ابھی اتنے مشہور نہیں تھے۔ ترناب فارم پشاور میں ملازم تھے۔ وہ ہمارے دوست خلیفہ کے مہمان تھے اور اپنے ساتھ ’’ہارمونیم‘‘ لائے تھے۔ ہم اُن کو مرغزار لے گئے ۔ وہاں کے لان میں بیٹھ کر اُن سے کئی غزلیں سنیں۔ جن میں ایک اُردو کی غزل بھی تھی، ملاحظہ ہو:
دل ویراں ہے تیری یاد ہے تنہائی ہے
زندگی درد کی بانہوں میں سمٹ آئی ہے
ریاست کے ادغام کے کئی سال بعد کی بات ہے۔مَیں بونیر میں 14 سال گزار کر سیدو شریف میں پوسٹ ہوا۔1985ء کی مون سون سیلاب کی تباہیوں سے نمٹنا پڑا، تو تقریباً روز مرغزار آنا جانا ہوا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
تاریخی ’’گیمن کمپنی‘‘ کا ریاستِ سوات میں کام
ریاستی دور کے ودودیہ ہائی سکول کا ایک مایہ ناز طالب علم
سوات ہوٹل کی تاریخ
حاجی شیرزادہ (مرحوم)، مینگورہ کے ایک کامیاب تاجر
لیکن آج جب مَیں، مدثر اور شوال اس پُرشکوہ مگر مختصر سے محل (سفید محل) میں گھوم رہے تھے، تو موسم بہت سرد اور ابر آلود تھا۔ سیڑھیوں کے اختتام پر ایک ملگجی داڑھی والے صاحب نے ہم سے تین نفر کے عوض 300 روپیا لے کر کا غذ کا ایک ٹکڑا تھما دیا۔ مدثر تو چھوٹا بچہ ہے۔ اس کے بھی 100 روپے چارج کیے۔
بہرکیف جب ہم واپس آئے، تو شاید اس آدمی کو احساس ہوگیا تھا۔ اُس نے ایک سو روپیا کا نوٹ شوال کو واپس تھما دیا ۔
ایک اور بات…… ہم دیہاتی لوگ اگر کسی شناسا کو اپنے گاؤں میں دیکھتے ہیں، تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ اُسے زبردستی ساتھ لے جاتے ہیں۔ حسبِ استطاعت اُس کی تواضع کرتے ہیں، مگر سیدو میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں یا تو نظریں چرا کر گزر جاتے ہیں، یا رسمی علیک سلیک کے بعد جلدی رخصت لے کر چل پڑتے ہیں۔
والیِ سوات کے بنگلے کے قریب والی مسجد سے لوگ عصر پڑھ کر نکل رہے تھے۔شوال نے سڑک کے کنارے کار کھڑی کردی، تاکہ احسان کے آنے کا انتظار کرے، جو بہن کے گھر شاہین آبا گیا تھا۔
مَیں فرنٹ سیٹ میں بیٹھا تھا۔ ایک شخص جو اُس سے پہلے اکثر سرِ راہ بہت گرم جوشی اور احترام سے ملتا تھا۔ ہمارے قریب سے گزرا۔ مجھ سے نظریں ملیں، تو جلدی منھ پھیر کر آگے بڑھ گئے۔ اُن کا گھر قریب ہی تھا……مگروہ آگے چلے گئے، تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ اُن کو کہیں جانا تھا۔
یار! اگر آپ مل بھی لیتے، تو بھی ہمیں رکنا نہیں تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔