سوات بلکہ پورے پاکستان میں محمد افضل خان ’’خان لالا‘‘ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہین۔ وہ اپنے نام کے ساتھ خان نہیں لکھتے تھے۔ گو کہ وہ سوات کے نامی گرامی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنا نام صرف ’’محمد افضل‘‘ لکھا کرتے تھے۔
فضل محمود روخان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-e-mahmood-rokhan/
ایک دن اُن کا فون آیا۔ اُنھوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ روخان آپ نے مجھے عام لوگوں میں شامل کیا ہے، یا خوانین میں……؟ مَیں نے جواب دیا کہ آپ کو مَیں نے کبھی خود سے الگ خیال نہیں کیا ہے۔
خان لالہ نے میری کتاب ’’سرہ پختنہ پہ شنو جامو کی‘‘ پڑھی تھی، اور دراصل اپنی تسلی کرنا چاہتے تھے۔ اصل میں اُس کتاب میں ایک موضوع سوات کے خان خوانین کے بارے میں تھا۔ اُس میں، مَیں نے اُن کا جائزہ لیا تھا۔ یوں خان لالا کو اپنی فکر لگی ہوئی تھی۔ مَیں نے اُنھیں بتایا کہ خان لالا! مَیں آپ پر ضرور لکھوں گا، لیکن بس ایک نکتہ میرے ہاتھ لگ جائے۔ انھوں نے مجھ سے جواباً کہا کہ ’’تم ایک نکتے کے بات کر رہے ہو، مَیں تو ’تین گولیاں‘ کھا چکا ہوں۔‘‘
وہ بجا فرما رہے تھے۔ دہشت گردوں نے بیدرہ گاؤں کے قریب اُن کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی۔ جس کے نتیجے میں خان لالا کو تین گولیاں لگی تھیں۔ اُن کا ڈرائیور موقع پر جاں بحق ہوگیا تھا۔ اُس حادثے میں خان لالا کا بھتیجا عبدالجبار خان سخت زخمی ہوگیا تھا۔ اُس وقت خان لالہ کی گورنمنٹ ہسپتال مٹہ میں مرہم پٹی کی گئی، جس کے بعد اُنھوں نے اپنے گاؤں (برہ درشخیلہ) واپس جانا ضروری سمجھا اور عبدالجبار خان سیدو شریف میں ’’النور ہاسپٹل‘‘ میں آپریشن کے لیے پہنچائے گئے۔ مَیں بھی اُس موقع پر برق رفتاری سے النور ہاسپٹل سیدو شریف پہنچ گیا۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ مَیں محمد ابراہیم شبنم (مرحوم) سے ملا، جو خان لالہ کے خاندان کے چشم و چراغ اور ہمارے قلم قبیلے کے ساتھی تھے۔
جب خان لالا نے مجھے فون پر بتایا کہ مَیں تو تین گولیاں کھا چکا ہوں، تو یہ سارا واقعہ میرے ذھن کہ پردے پر کسی فلمی سین کی طرح چلنے لگا۔ مَیں نے اُنھیں کہا کہ ’’خان لالا! آپ ٹھیک کَہ رہے ہیں۔‘‘
اُس کے بعد مَیں نے اُن پر اخبار میں کچھ لکھا۔ بعد اَزاں اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک شیلڈ بنوایا اور اُنھیں فون پر بتایا کہ مَیں اپنے دو ساتھیوں کے ہم راہ آپ کے ہاں آرہا ہوں۔ خان لالا نے جواباً کہا کہ آجائیں۔ ظہر کی نماز مسجد میں اکٹھے پڑھیں گے اور کھانا میرے ساتھ کھائیں گے۔
مَیں نے فضل ربی راہیؔ اور طیب کو ساتھ لیا اور اُن کے حجرے پر پہنچ گئے۔ جیسا خان لالا نے کہا تھا، ٹھیک ویسے ہوا۔ اُن کے ہم راہ ہم مسجد نماز پڑھنے گئے اور اکٹھے کھانا کھایا۔
کھانے کے وقت خان لالا نے زمین پر دستر خوان بچھایا اور زمین ہی پر بیٹھ کر ہم نے اکٹھے کھانا کھایا۔ بچا کھچا کھانا اور ہڈیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کیا اور اپنے فالتو کتے کے سامنے رکھ دیا، جو خاموشی سے زمین پر لیٹا ہوا غالباً اپنے کھانے کی باری کا انتظار کر رہا تھا۔
کھانے کے بعد ہم برامدے میں لگی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ دیر تک ہم ایک دوسرے کو سنتے رہے۔ پھر ہم نے اُن کو شیلڈ دیا۔ اُن کے ساتھ فرداً فرداً تصویر بنوائی۔ اُس کے بعد چیری پھل کے کریٹوں سے ہمیں نوازا گیا۔
یہ اُس دور کی بات ہے جب سوات میں ہر طرف بدامنی پھیلی ہوئی تھی۔ دہشت گردوں نے پورے سوات کو ایک طرح سے یر غمال بنایا ہوا تھا۔ جن لوگوں کے پاس پیسا تھا، اُن سے دہشت گردوں نے باقاعدہ طور پر پیسے لیے اور اُنھیں سوات سے جانے کا راستہ دیا۔ اس طرح وہ اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں مقیم ہوگئے…… لیکن خان لالا نے اپنے خاندان کے ہم راہ مورچے میں بیٹھ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔
اُس دور میں خان لالا سے میرا فون پر رابطہ بحال تھا۔ کبھی وہ فون کرلیتے اور کبھی مَیں فون کڑکا لیتا اور اُن کا حال احوال جان لیتا۔
خان لالہ مجھ سے دل کی بات کہا کرتے۔ ایک ملاقات میں اُنھوں نے مجھے بتایا کہ جب مجھ پر حملہ ہوا، تو چند دن بعد ملا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ہم راہ میرے حجرے آیا اور مجھے یقین دلایا کہ خان لالا مَیں نے یا میرے لوگوں نے آپ پر حملہ نہیں کیا تھا۔ اس پورے عمل میں میرا کوئی ہاتھ نہیں۔
اس طرح خان لالا اپنے ایک بھتیجے سے کسی بات پر ناراض ہوئے تھے، جو خیر سے شاعر بھی تھا۔ اُنھوں نے وہ سب کچھ مجھے بتایا تھا۔ دراصل خان لالا کے بقول بات اتنی بڑی نہیں تھی، لیکن بس خان لالا کو بری لگی تھی۔
خان لالا 1931ء میں حبیب خان (جو سوات کی تاریخ میں ’’دارمئی خان‘‘ کے نام سے مشہور ہیں) کے ہاں پیدا ہوئے تھے اور یکم نومبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔
خان لالا صوم و صلات کے پابند تھے۔ اُنھیں قرآنِ مجید کے معانی و مفہوم پر عبور حاصل تھا۔ سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حدیث اور تفسیر القرآن سے آگاہ تھے۔ ان کا سیاسی قد لمبا تھا۔ ایک پشتون قوم پرست رہنما کے طور پر مشہور تھے۔ وہ پاکستان میں مختلف قومیتوں کے قائل تھے اور اُن کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ وزیر رہ چکے تھے۔ اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی لیڈر تھے۔ اللہ بخشے، ڈھیر ساری خوبیوں کے مالک تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔