عوامی تاثر کیا ہے، کیا کسی چیز یا فیصلے بارے عوامی رائے ہی کو عوامی تاثر کہا جاتا ہے؟
اکرام اللہ عارف کی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
آج کل ملک کے طول و عرض میں جو عوامی تاثر بنا ہوا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اگرچہ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ریاستی و حکومتی مشینری پورے زور سے مصروفِ عمل ہے، مگر سالوں سے پختہ اس عوامی تاثر کو زائل کرنا کچھ آسان کام نہیں۔ مجموعی عوامی تاثر یہ بن چکا ہے کہ یہ ملک اشرافیہ کے لیے بنا ہے۔ اس تاثر کو قوی بنانے میں ایک طرف تیز ترین سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ ہے، جس نے مقتدرہ اور مافیا طبقوں سے پردہ سرکالیا ہے۔ ریاستی اور حکومتی چہرے سے جب مصنوعی استحکام کا میک اَپ اُترچکا، تو عوام کو یہ بات خوب سمجھ آگئی کہ گذشتہ 16 مہینوں میں تجربہ کاروں کے نام پر اکٹھی کی گئی سرکار نے ماسوائے ذاتی فوائد سمیٹنے کے کچھ نہیں کیا۔ اب یہ واضح ہے کہ ملک کے دو بڑے حکم ران خاندانوں میں سے ایک خاندان کے لوگ جب ملک میں ہوں، تو حکم رانی کرتے ہیں، لیکن جیسے ہی حکومت ختم ہوجاتی ہے، اُن کے روز و شب لندن میں گزرتے ہیں۔
اسی طرح ان تجربہ کاروں میں ایک شخص کو معاشی سُوپر مین بھی بنایا گیا تھا۔ وہ کہتا کہ ڈالر کو 200 کی سطح پر لاؤں گا۔ موصوف آگئے، وزیر بن گئے، اپنے مخالف کیس حل کروائے اور لندن واپس جا بسے۔ ڈالر نے 200 پر کیا آنا تھا، اُلٹا 300 کی حد پار کرگیا۔
ناکامی اور مایوسی سے مزین اس عوامی تاثر میں سوشل میڈیا کے بعد دوسرا اہم کردار ایک سیاست دان کا ہے، جو آج کل قیدی نمبر 804 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُس شخص نے کچھ عرصہ قبل ریاستی ذمے داران کے ساتھ مل کر ایک بھرپور مہم چلائی تھی اور نئی نسل کو یہ باور کرایا تھا کہ اس ملک پر اشرافیہ قابض ہے۔ ہم غلام ہیں۔ حقیقی آزادی چاہیے۔ سیاست دان سبھی چور ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان نعروں، دعوؤں اور وعدوں سے موصوف خود اُس وقت مکر گئے، جب حکومت میں آئے…، لیکن اِن نعروں نے نوجوان ذہنوں کو متاثر ضرور کیا اور ان کی اکثریت یہ ماننے پر مائل ہوگئی کہ واقعی اس ملک کی بربادی کا اصل ذمے دار قابض اشرافیہ یا مافیا ہے۔
نوجوان جو ملکی مجموعی آبادی کا تقریباً 60 فی صد ہیں۔ اُن کی اکثریت آج بھی سیاست دانوں کی محبت میں گرفتار ہے۔ گذشتہ 16 مہینوں کے تجربہ کاروں کا ناکام تجربہ ہو یا مابعد ایک اور تجربے کی تیاری کے، ہر دو نے عوامی ذہنوں میں اس تاثر کو پختہ کردیا ہے کہ شاید یہ ملک بنا ہی عوام کے لیے نہیں تھا۔ روزبہ روز بڑھتی بدامنی، مہنگائی اور اوپر سے تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے ایک ایسی ہیجانی کیفیت پیدا کی ہے، جس نے عوامی ذہنوں میں پہلے سے موجود مایوسی سے مزین تاثر کو مزید مہمیز کردیا ہے۔ مایوسی کے مارے لوگوں میں سے کئی ایک کو ریاستی ڈنڈا بہت راس آیا ہے۔ کیوں کہ ڈالر اور سونے کی قدر و قیمت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کچھ اسمگلروں کے خلاف تن دہی دکھائی گئی ہے اور مجموعی ماحول بنایا جارہا ہے کہ غیر قانونی معاملات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ امر خوش آیند ہے، مگر سوال یہ بھی ہے کہ ریاستی ڈنڈا آخر کب تک کارگر ثابت ہوگا، کچھ عرصہ بعد جب ڈنڈے والا تبدیل ہوجائے گا، تو کیا پھر بھی یہ ڈنڈا اِسی طرح موثر ثابت ہوگا؟
اسی طرح اگر ملک میں مقررہ وقت پر انتخابات نہیں ہوتے، آئین صرف کاغذ کا ٹکڑا رہ جاتا ہے، تو ملک بھر کے لوگ صرف اس لیے خاموش رہیں گے کہ ریاستی ڈنڈا اُن کے سر پر ہے۔ یہ ریاست کے اندر ریاست کی تشکیل ہے، یا آمریت اور جمہوریت کی ناکامی کے بعد شاید ایک نئے نظام کی تشکیل کا نقطۂ آغاز……..!
برسبیلِ تذکرہ، ایک سابق وزیرِ اعظم نے ایک محدود بیٹھک میں بتایا تھا کہ ’’ہماری حکومتیں فیصلوں سے قبل یہ دیکھتی آرہی ہیں کہ ان فیصلوں کا عوامی تاثر کیا ہوگا؟ کیوں کہ ہمیں ووٹ لینا ہوتا ہے، اس لیے ہم ووٹ کے تناظر میں فیصلے کرتے ہیں۔‘‘
اب مگر حالات ایسے ہیں کہ عوامی تاثر سے ہٹ کر حقائق کی بنیاد پر فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مسئلہ بقا کا ہے۔ اگر بقا کے لیے حقیقی کوشش کی جاتی ہے، تو اقوال نہیں اعمال کی بنیاد پر عوامی تاثر کو مثبت رُخ دیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔