جب مَیں نے ہوش سنبھالا، تو اُس وقت ہماری مسجد افسر آباد (سیدو شریف) کے امام حافظ بختیار صاحب تھے۔ ان کی رہایش محمد شیرین کمان افسر صاحب (بعد میں کپتان/ منصف) کے پڑوس میں تھی۔ مسجد اُس وقت ایک بہت بڑے کمرۂ صلات، برآمدہ اور ایک کمرہ صحن کے کنارے باہر سے آئے طلبہ کے قیام گاہ پر مشتمل تھی۔ آبادی پتھر کی دیواروں، لکڑی کے شہتیروں اور کڑیوں کی بنی ہوئی تھی۔ مسجد میں گھاس (جسے پشتو میں بروزہ کہتے ہیں) کی تہوں کے اوپر مزری کی لمبی لمبی چٹائیاں (پھوڑ) بچھی ہوئی تھیں۔ صحن میں شہتوت کا ایک درخت تھا، جس پر گرمیوں میں خوب لمبے لمبے شہتوت لگتے جو بہت رسیلے اور میٹھے ہوتے تھے۔
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
جب بختیار حافظ جی صاحب سیدو بابا کے قریب رہایش ملنے پر افسر آباد سے چلے گئے اور وہاں اُنھوں نے گروسری کی ایک دُکان بھی کھولی، تو اُن کی جگہ لینے ایک اور حافظِ قرآن آگئے…… جو بختیار صاحب کے چچا تھے۔ تعلق اُن کا سرسینئی سے تھا۔ عمر کے ادھیڑ پن سے گزر رہے تھے بلکہ گزر گئے تھے۔ برسبیل تذکرہ، بختیار صاحب مشہور ماہرِ چشم ڈاکٹر آفتاب کے والد تھے۔ اُن کا نام غالباً حافظ فضل ہادی تھا۔ لمبی سرخ خضاب آلودہ داڑھی تھی۔ خود بھی گورے چٹے اور چھریرے بدن کے مالک تھے۔ سائیکل ہمیشہ پسندیدہ سواری رہی اور اکثر اپنے گاؤں سرسینئی سائیکل پر آجایا کرتے تھے۔ چہرہ مبارک پر چیچک کے ہلکے سے نشانات تھے۔ قرآن خوب حفظ تھا۔ آوازبس اوسط درجے کی تھی۔ کثیر الازواج و کثیر الاولاد تھے۔ شادیوں کا اتنا شوق تھا کہ ضعیف العمری میں بھی دوبار سہرا باندھ چکے تھے۔ بتاتے تھے کہ یہ آواز بہت مسرت آمیز لگتی ہے، جب نکاح خواں پوچھتا ہے: ’’لڑکے کی طرف سے کون وکیل؟‘‘
دوسرا پسندیدہ عمل اُن کا یہ تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو وہ حج کی سعادت حاصل کرسکیں۔ کسی سال موقع ہاتھ نہ آتا، تو بہت اُداس ہوجاتے۔ وہ ہمارے افسر آباد والی مسجد میں سب سے طویل عرصہ تک امام رہنے والے بندے تھے۔ اس دوران میں مسجد کی جدید تعمیر ہوگئی۔ افسر آباد کی پرانی حویلیاں گرادی گئیں اور نئے طرز کے بنگلے اور کوارٹر بن گئے۔ان کو بھی ایک کوارٹر رہایش کے لیے مل گئی۔
ہم سڑک کے کنارے نئے تعمیر شدہ بنگلوں میں سے ایک میں شفٹ ہوگئے۔ مولوی صاحب اب میرے بچوں ہمایوں اور احسان کو پڑھانے آتے تھے۔ ایک دن بتایا کہ ’’امسال حج پر جارہا ہوں!‘‘ روانگی کے دن پھر آگئے اور سب سے رخصت لی۔ ہم نے حسبِ معمول خیریت سے واپسی کی دعا کی، تو جانے کس جذبے سے کہا: ’’اللہ نہ کرے کہ مَیں واپس آؤں، بس وہیں مرجاؤں۔ اب کی بار یہی دعا کریں۔‘‘
یہ اُس سال کی بات ہے جب خوارج نے کعبہ پر قبضہ کیا تھا۔اُن کو دوسرے حجاج کے ساتھ حرم شریف سے نکال دیا گیا، مگر اُن کو گوارا نہ ہوا اور واپس مڑ کر ایک مرتد کے سینے میں عصا ماری۔ اُس بدبخت نے ہلکی مشین گن کی پوری چیمبر مولوی صاحب کے سینے میں خالی کردی۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔