انتخاب: احمد بلال
جنابِ صدر، اراکینِ مجلس، خواتین اور حضرات…… شکریہ، بے حد شکریہ……! میرے دل کی گہرائی سے شکریہ…… اُس اعزاز کے لیے جو آپ نے مجھے تفویض کیا اور جو مہربانی بھرے الفاظ ادا کیے گئے۔
اِس بات کا شدید خطرہ ہوگا کہ آپ یہ سمجھیں کہ ایک ادیب جو 2 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے یہاں آیا ہے، وہ تھوڑا سا سادہ لوح اور پیش پا افتادہ ہے۔ اگر وہ اپنی تقریر کا آغاز نغمۂ حمد و ثنا سے کر دے کہ ادب پر اُس کا ایمان تازہ ہے اور صاف الفاظ میں یہ کَہ اُٹھے، کہ یہ ادب ہی ہے جو اُسے آزاد انسان بناتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ترانا سے، جو میرے ملک کا دارالحکومت ہے، یہاں اسکاٹ لینڈ کے دار الحکومت ایڈنبرا تک 2 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس کے باوجود میں نہ صرف ادب پر اپنے ایمان کا اعلان کروں گا اور چاہے یہ بات کتنی ہی عجیب کیوں نہ معلوم ہو، مَیں یہ بھی اضافہ کروں گا کہ میرے لیے، بالکل آغاز سے اسکاٹ لینڈ نے اس تفہیم میں ایک کلیدی کردار ادا کیا کہ آزادی اور ادب کس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں مختصر طور پر بیان کروں جو مَیں نے آج سے 40 برس پہلے اپنی ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’وقوعہ درسنگ‘‘ میں لکھا تھا اور جس میں سے پروفیسر جان کیری نے چند لمحے پیش تر اس قدر بالغ نظری سے اقتباس پیش کیا۔
مَیں البانیہ کے ایک چھوٹے سے اور قرونِ وسطیٰ کے دور کے شہر میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا، جو ایک عظیم قلعے کے زیرِ سایہ واقع تھا۔ یہ قلعہ جس قدر متاثر کن تھا، اُس قدر رعب دار بھی تھا۔ تمام حکومتوں نے اُس قلعے کو زِنداں کے طور پر استعمال کیا تھا اور کمیونسٹ حکومت بھی اُن سے مختلف نہ تھی۔ چوں کہ اُسے شہر کے ہر کونے سے دیکھا جاسکتا تھا، اس لیے یہ قلعہ اور اس کا زِنداں ہر سمت طاقت اور ڈراوے کی بوچھار کر رہا تھا۔
اپنے بچپن میں، مَیں اس قلعے کے سائے میں پل کر بڑا ہوا۔ جب میں 11 بارہ برس کا تھا، علاوہ ازیں، مطالعے سے میری پہلی سنجیدہ ملاقات کا زمانہ تھا، ایک اور قلعہ میرے ذہن اور تصور پر حاوی ہوگیا۔ یہ اسکاٹ لینڈ کا ایک قلعہ تھا، جس کا یہاں سے زیادہ فاصلہ نہیں: میک بیتھ کا قاعدہ۔
اُس دور دراز کے شمالی قلعے سے میری مسحور کن دلچسپی کافی تھی کہ وہ میرے اس مقامی قلعے کو بے حیثیت بنا کر رکھ دے۔ اس کا زِنداں اور زِنداں کے محافظ اور اس کا دھمکتا ہوا انداز بھی کسی نہ کسی طرح دھندلے پڑگئے۔ ایک بہت ہی عجیب و غریب واقعہ رونما ہوچکا تھا۔ کمیونزم کی ایڑی تلے کچلے ہوئے ایک چھوٹے سے ملک، البانیہ کے دور افتادہ علاقے کا ایک نوعمر لڑکا اُچھل کر یوں سمجھیے کہ شیکسپیئر کی طاقت کے ہاتھوں سے دھکیلا جاتا ہوا اسکاٹ لینڈ کے دور دراز ساحلوں تک پہنچ گیا، جو دھند میں کھوئے ہوئے تھے اور جہاں تک رسائی ناممکن تھی۔
یہ نوعمر لڑکا ابھی سے ایک اور اقلیم کا باشندہ بن چکا تھا، اقلیمِ ادب کا باشندہ۔ اس نے اپنا تخیل اور اپنا ضمیر بھی اس اقلیم کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے قوانین دوسرے تمام قوانین سے بالا تر تھے۔ اس کے رہنما…… ہومر، شیکسپیئر، دانتے، کافکا…… صحیح معنوں میں اس کے مالک و مختار تھے۔
مَیں نے اپنے آپ کو اس کشش کے حوالے یوں کر دیا جیسے یہ کوئی مذہب ہو۔
یہ سوال اَن گنت دفعہ مجھ ایسے لوگوں کے سامنے رکھا گیا ہے، جو سابق کمیونسٹ ایمپائر کے لکھنے والوں میں شامل ہیں: ’’آپ اس کی کیا توجیہ کریں گے کہ اُس دور میں اور اس مقام پر جہاں اور جس وقت ایسا کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا تھا، اس سب کے باوجود آپ نے حقیقی ادب تخلیق کیا؟ اس سوال کے لیے میرا اپنا جواب بالعموم اس طرح کا ہوتا تھا: ’’ہمیں ادب پر یقین تھا۔ ہمارے ایمان اور وفاداری کے عوض ادب نے ہمیں اپنی رحمت اور حفاظت سے نوازا۔‘‘
ادب پر یقین کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہے، اُس سے بلند تر ایک حقیقت پر یقین کیا جائے۔
ادب پر یقین کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھیانک حکومت جو آپ کے ملک کے اوپر مسلط ہے اور قبضہ جمائے ہوئے ہے، وہ ٹھس اور مردہ نظر آتی ہے، جب اُس کا موازنہ ادب اور اس کی ماتمی شان سے کیا جائے۔
ادب پر یقین کا مطلب ہے کہ آپ کو اس بات پر اعتبار ہو کہ آپ کے اوپر جو حکومت مسلط ہے، اُس کے پولیس کے سپاہی جو آپ کی نگرانی کرتے ہیں، اُس کے اعلا حکام اور اس کے کَل پرزے، بلکہ ظلم و استبداد کا یہ پورا ایوان محض ایک ڈراؤنا خواب ہے، جو گزر جائے گا۔ ایسی چیز جو اس بالاتر طاقت کے سامنے، جس کے پیروکار آپ بن چکے ہیں، بالکل مردہ حیثیت رکھتی ہے۔
اپنی بات کی مختصر طور پر وضاحت کرنے کے لیے میں آپ کو دانتے کے ’’طربیہ خداوندی‘‘ کا ایک حوالہ دوں گا۔ جہنم کا سفر کرتے ہوئے ایک جگہ دانتے ایک بڑے بھاری طوفان سے سہم جاتا ہے، جو اُمڈتا ہوا سامنے آرہا ہے۔ دانتے کا رہ نما ورجل اس سے کہتا ہے: ’’اس سے نہ ڈرنا کہ یہ تو مردہ طوفان ہے!‘‘
یہ فقرہ اس بات کی وضاحت کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جو میں ابھی کَہ رہا ہوں۔ اگر آپ کسی آمریت کے خراب موسم کو ’’مردہ طوفان‘‘ کے طور پر دیکھنے کی کوشش میں کامیابی حاصل کرلیں، تو آپ کو اس معمے کے حل کی کلید حاصل ہو جائے گی…… مگر ادیب کو یہ کلید صرف ادب سے حاصل ہو سکتی ہے۔
جب آپ ادیب ہوں، تو اس آگہی کے ساتھ زندگی گزارنا آسان نہیں کہ آپ موت کی حکومت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مطلق العنان نظام کے تحت ادب اور دوسرے تمام فنون کو ظلم و ستم کے فقید المثال دور سے گزرنا پڑا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ادیبوں کو ہر زمانے میں سزا دی گئی ہے اور بندش، زباں بندی، زِنداں، جَلا وطنی اور ملک بدری ہمیشہ سے موجود رہے ہیں…… مگر جس حکومت کی میں بات کر رہا ہوں، وہ اس سلسلے کے اہم ترین کارناموں پر پابندی لگا دینے پر قانع نہیں تھی۔ فنی تخلیق کے وہ عظیم الشان کلیسا۔ نہیں، اُس حکومت نے اس امکان ہی کو معدوم کر دینے کی کوشش کی کہ ایسی شان دار یادگاریں دوبارہ تعمیر ہوسکیں گی۔ دوسرے الفاظ میں اُس نے وہ خام مواد ہی غارت کر دینے کی پوری کوشش کی کہ جس سے یہ شان دار معبدوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اُس نے پوری کوشش کی کہ لکھنے والوں کی ایک نئی ٹولی ترتیب دی جائے، جو جوش و مسرت کے ساتھ اپنے ہی ہاتھوں سے اَدب کو مٹا ڈالنے کے لیے کوشاں ہو گئے۔
اس لحاظ سے اسٹالن ازم نے بے حد کامیابی حاصل کی۔ معبد سے رُخصت ہونے والے ادیبوں کی قطار روز بہ روز طویل تر ہوتی گئی۔ اس کے برخلاف وہ جو اپنے عقیدے پر قائم تھے اور اپنی جگہ ثابت قدم رہے، اُن کی تعداد گھٹتی چلتی گئی۔ محض چند افراد کی ہماری یہ اقلیت تھی، اس بے کراں اور مایوس کن صحرا میں جس کا نام تھا ’’سوشلسٹ حقیقت پسندی‘‘…… ایسا ادب تخلیق کرنے میں ہم ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے، جو اس طرح لکھا جاتا گو یا اس حکومت کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ کبھی کبھار ہم اس میں کامیاب ہوجاتے۔ بہت دفعہ ہمیں کامیابی حاصل نہ ہوتی۔ محض یہ تصور کہ اپنی زِندانی قوم کے لیے روحانی غذا کے چند نوالے تیار کرسکتے ہیں، ہمیں بے اندازہ خوشی سے بھر دیتا۔
مجھے اس نکتے پر زور دینے کی اجازت دیجیے کہ یہ عاجزانہ روحانی غذا زِنداں میں مبتلا ہمارے لوگوں کی بقا کا سامان تھی۔
اور پھر اچانک ایک دن، آمریت کی سیاہ رات سے گزر کر ہمارے قید خانے کی یہ روٹی کسی حادثے کے سبب آپ کے دستر خوان تک جاپہنچی۔ آپ کے آزاد شہروں میں۔ پیرس، لندن، نیویارک، میڈرڈ، ویانا، روم…… آپ نے قید خانے کی یہ روٹی اٹھالی اور بہت تجسس کے ساتھ اس کا جائزہ لیا۔ آپ نے اس کا ایک نوالہ توڑا، تو آپ کو لگا کہ یہ اچھی ہے، اور آپ نے اندازہ لگایا کہ اس کو آپ لوگ بھی چکھ سکتے ہیں جو آزاد دنیا کے شہری ہیں۔
البانیہ کا کوئی بھی ادیب اس سے زیادہ تعریف کا کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کے لیے تو یہ انجیل کے سے انداز کا معجزہ تھا۔ مختصر سا، فراموش شدہ اور سب سے قطع تعلق کیے ہوئے البانیہ۔ وہ سرزمین جسے تقریباً زندہ درگور کر دیا گیا تھا، آخرِکار اُس میں زندگی کے آثار کا تسلسل نظر آنے لگا۔ البانیہ نے عندیہ دیا کہ آمریت نے اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ ضرور دیے تھے، مگر اُس کی روح کو پابند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔
یہ اشارہ جو ادب کے وسیلے سے نشر کیا گیا اور اسے بڑی کامیابی کے ساتھ آپ نے وصول کرلیا، میرے عزیز دوستو! اور اسی نے ناقابلِ تصور کو ممکن بنا دیا۔ یہی وہ اشارہ ہے جس نے آج کے انعام کو ممکن بنا دیا۔ اس کی بدولت میرے لیے ممکن ہوا کہ سفر کرکے یہاں تک آؤں، دور دراز کے دیس اسکاٹ لینڈ میں اور یہی وہ چھوٹا…… وہ چھوٹا سا اشارہ ہے جس کی بدولت میں کل اس جگہ جاؤں گا جو میرے تخیل میں پہلے پہل آباد ہوئی، اُس مکان میں جس نے کسی بھی دوسری جگہ سے بڑھ کر ادب کے لیے میرے جذبات کو فروغ دیا…… میک بیتھ کا قلعہ، میک بیتھ جوگمیس اور گاؤڈر کاتھین تھا۔
(’’اسماعیل کادرے "Ismail Kadare” کا مین بکر بین الاقوامی ادبی انعام 2005ء کے موقعے پر کی گئی تقریر کا اُردو ترجمہ‘‘، مترجم ’’آصف فرخی‘‘)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔