گذشتہ کچھ مہینوں سے یہ نکتہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ سب کچھ میڈیائی پابندیوں سے ممکن نہیں۔ اس لیے ملک کے شمال اور جنوب کے حوالے سے جو غیر علانیہ میڈیائی پالیسی اپنائی گئی ہے، وہ بری طرح فیل ہوچکی ہے۔ اب تو خیر باقی ملک کی بات بھی بدل سی گئی ہے۔ ایک مشہور عوامی راہنما کا نام مین اسٹریم میڈیا پر لینا ’’حرام ‘‘ ہوگیا ہے۔ آپ اُنھیں ’’قاسم کے ابا‘‘ یا ’’مرحومہ شوکت خانم کا فرزندِ ارجمند‘‘ پکار کر یا ضبطِ تحریر میں لاکر اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں۔ حالاں کہ موصوف کے بارے میں بھی حکومتی اور ریاستی پالیسی ٹھس ہوکر رہ گئی ہے۔ 9 مئی کے بعد 2 مہینے گزر گئے، لیکن خیبر پختونخوا میں بالخصوص اور پنجاب میں بالعموم کوئی قابلِ ذکر راہنما پارٹی کو چھوڑ کر نہیں گیا۔ پنجاب میں جو گئے بھی ہیں اور ’’استحکامِ پاکستان‘‘ کے لیے مصروف ہوگئے ہیں، اب اگر ملکی استحکام ان ہی کے مرہونِ منت ہے، تو پھر سوچنا چاہیے کہ ملکی استحکام کے لیے جو اربوں مختص کیے جاتے ہیں، وہ کہیں ضائع تو نہیں ہورہے؟
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
تبدیلی کا سچا یا جھوٹا جو بھی ہو، لیکن بیانیہ جو قاسم کے ابا نے نوجوانوں کو دیا تھا، وہ ابھی تک کار آمد ہے۔ اُس کی کامیابی میں خود تحریکِ انصاف سے زیادہ مخالف سیاسی پارٹیوں اور ریاستی بیانیوں کا ’’اَپ ٹو ڈیٹ‘‘ نہ ہونا ہے۔ تحریکِ انصاف کے کئی ایک راہنما اور کارکنان ابھی تک جیل میں سخت گرمی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس ہمت کی وجہ شاید یہی ہے کہ پارٹی کا سربراہ باجود ’’آفرز‘‘ کے ملک سے گیا نہیں، بلکہ ابھی تک اپنی ضد پر اڑا ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت جو برس ہا برس سے فرسودہ، روایتی اور موروثی نظامِ سیاست سے تنگ ہے، انھوں نے قاسم کے ابا کی صورت میں بظاہر ایک ’’غیرت مند‘‘ لیڈر ڈھونڈ لیا ہے۔ قاسم کے ابا کی یہ شبیہ بنانے میں اس پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ (ففتھ جنریشن انفو وار فئیر) کا بھی عمل دخل ہے، جو گذشتہ کئی سالوں سے اپریل 2022ء تک ریاستی سرپرستی میں لڑی گئی۔ اس ابلاغی جنگ نے جو قیامت بپا کی تھی، اُس کی اکثریت اب خود ریاست کے زخموں پر نمک پاشی میں مصروف ہیں۔
قارئین! ہم نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ نوجوانوں کو گم راہ کرنے کے لیے ’’ریاستی سرپرستی‘‘ میں ’’ابلاغی جنگ‘‘ کا یہ ہتھیار مہلک ہے۔ تب لیکن ذمے داران کے سروں پر ’’تبدیلی‘‘ کا جن بری طرح سوار تھا۔ اب جب وہ بخار اُتر گیا ہے، تو اُس ابلاغی جنگ کے نتیجے میں ’’تبدیلی‘‘ ریاست کے لیے وہ کمبل بن چکی ہے، جو اگر ریاست چھوڑنا چاہے، تو کمبل ریاست کو نہیں چھوڑ رہا۔ لہٰذا اب ستر پوشی کے لیے سیاسی اور ابلاغی لیپا پوتی ہورہی ہے:
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
اب ابلاغیات کا کینوس بہت وسیع ہوچکا ہے۔ ملک کے نوجوان اب ’’ففتھ جنریشن انفو وار فیئر‘‘ سے ’’سکستھ جنریشن انفور وار فیئر‘‘ میں داخل ہوچکے ہیں…… جس کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی بیانیے کی عمارت زمین بوس ہوچکی ہے۔ نتیجتاً قاسم کے ابا کی تقاریر ہوں یا ملک کے شمال اور جنوب میں ’’معلوم‘‘ و ’’نامعلوم‘‘ گروہوں کے قتل، تشدد، جبری گم شدگیاں اور اِغوا برائے تاوان وغیرہ کے شواہد اور داستانیں ہوں، سوشل میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
ابلاغیات کی اس جنگ میں ملکی نجی میڈیا بھی میچ ہار چکا ہے۔ ریاستی یا حکومتی پالیسیوں سے مجبور ان میڈیا چینلوں کی ’’ریٹنگ‘‘ دیکھی جائے، تو باآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان کے ناظرین کی تعداد روز بروز گھٹ رہی ہے…… جب کہ سوشل میڈیائی دنیا کی رونقوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے پچھلے ہفتے بھی یہ عرض کیا تھا کہ ملک کے شمال اور جنوب میں جو معاملات چل رہے ہیں، یہ ایسے نہیں کہ آپ ریاستی بیانیے سے ان کو حل کرلیں گے یا ملک کی وسیع اکثریت کو اس بیانیہ پر یک سو کرلیں گے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا، تو شمال و جنوب کی کہانیاں تو ایک طرف ابھی تک کم ازکم آپ 9 مئی کے واقعات پر تو قوم کو متحد کرلیتے…… لیکن اس پر بھی ابلاغیاتی ناکامی کا سامنا ہے۔ لوگ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا 9 مئی سے پہلے بھی لاہور میں جناح ہاؤس موجود تھا؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ موثر ابلاغیات کی عدم موجودگی میں جو لیپا پوتی ہوتی ہے، اُس کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا شمال اور جنوب کے جو حقیقی مسائل ہیں، اُن کے حل میں ’’کمیونٹی کمیونی کیشن‘‘ ایک موثر ہتھیار ہے۔ اس کے ذریعے مقامی آبادی کو اعتماد میں لے کر مقامی مسائل کے حل کے لیے ذمے داران کو بروقت مطلع کرنا ہوتا ہے، تاکہ غیر متعلقہ قوتیں اُن مسائل کی بنیاد پر مقامی آبادی کو ’’ففتھ جنریشن انفو وار‘‘ کے ذریعے ورغلا کر ریاست کے لیے دردِ سر نہ بنائیں۔
وما علینا الاالبلاغ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔