موٹیویشن (Motivation) کے متعلق ہم سب کے خیالات سیاہ اور سفید ہیں۔ یا تو ہم ’’موٹیویٹیڈ‘‘ ہیں یا پھر نہیں۔ ڈاکٹر ٹیمپل گارڈن جو کہ آٹسٹک (Autistic) ہیں اور اس خاص قسم کے دماغ پر کتابیں بھی لکھ چکی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ دنیا میں سب لوگوں کے سوچنے اور معاملات کو سمجھنے کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔ دنیا کسی ایک خاص دماغ کو سب پر اہم قرار دیتی ہے اور پھر وہ لوگ جو اس طرح سے نہیں سوچتے، جیسا سسٹم چاہتا ہے، تب اُنھیں مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
امریکی سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر آلوک کنوجیہ کہتے ہیں کہ مغرب میں ادویہ بناتے وقت جب ڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے، تو وہ چند لوگوں کو مدِ نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق اس فیلڈ میں بیماری پر ریسرچ کی جاتی ہے نہ کہ وہ بیماری اس خاص انسان کو کس طرح سے متاثر کر رہی ہے اس پر…… اور یہی وجہ ہے کہ ایک کی قسم کی دوائی سب کو لکھی جاتی ہے، لیکن وہ سب پر یکساں کام نہیں کرتی۔ کسی پر کم، کسی پر زیادہ تو کسی پر بالکل بھی نہیں، اور کسی پر منفی اثر بھی کرسکتی ہے۔
یہی سوچ ہماری موٹیویشن کے متعلق بھی ہے۔ سب کے لیے ایک قسم کی موٹیویشن کام نہیں کرتی۔ کیوں کہ ہم سب کا سوچنے اور سیکھنے کا انداز (Cognitive Style) مختلف ہوتا ہے۔ جیسا آپ کا کوگنیٹو اسٹائل ہوگا ویسا ہی آپ کا موٹیویٹ ہونے کا انداز ہوگا۔ ہر کوئی صرف یہ کہنے سے موٹیویٹ نہیں ہوتا کہ تم کرسکتے ہو، جاؤ کر دکھاؤ……! یقینا کچھ لوگ ہوں گے جو اس سے موٹیویٹ ہوتے ہوں گے، لیکن ہر کوئی نہیں ہوتا۔
مَیں تین ذہن اور اس سے منسلک موٹیویشن کے طریقے پر بات کروں گی جو کہ محض ایک تھیوری ہے۔ اس کی کوئی سائنسی تحقیق نہیں، لیکن اس تھیوری میں کچھ دانش ضرور ہے۔ شاید آپ کے کسی کام آسکے ۔
٭ ونڈ مائنڈ (Wind Mind):۔ ایک ایسا ذہن جو متحرک (Dynamic) ہے۔ نئی چیزوں کو دیکھ کر جلدی محرک (Excited) ہونے والا اور جلد ہی بور بھی ہوجانے والا۔ ایسے لوگ عموماً کوشش کرتے ہیں کہ وہ خود کو کسی ایک کام پر مستقل مزاجی کے ساتھ جوڑ سکیں، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔ ایسے ذہن والوں کو چاہیے کہ وہ خود کو زبردستی کسی ایک چیز پر فوکس کرنے کی بجائے چند (بہت زیادہ نہیں بلکہ چند ضروری کام) چیزوں میں اپنا وقت صرف کریں۔ انھیں چاہیے کہ یہ زیادہ بریک لیں دن میں …… اور جو بھی ٹاسک ہیں، اُن کو بدلتے رہیں۔ جیسے ہی ٹاسک نمبر ایک سے بور ہوں، تو ٹاسک نمبر تین کی جانب دیکھیں، تو وہ بوریت محسوس نہیں کریں گے۔ یہ تیزی سے سیکھنے والے ذہن ہوتے ہیں۔
آپ ان لوگوں کی طرح جو کسی ایک کام پر سالوں لگالیتے ہیں، نہیں ہوں گے…… بلکہ آپ کی شخصیت کے مطابق آپ مختلف کاموں کو وقت دے کر ہر کام کو اپنے لحاظ سے بہتر طور پر کرسکیں گے۔ اس ذہن کی مثال تیز دوڑنے والوں کی ہے نہ کہ میراتھون (Marathon) میں حصہ لینے والوں کی۔ ایسا ذہن زیادہ تر اضطراب اور پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔ عموماً مسائل اتنے ہوتے نہیں جتنے اُنھیں نظر آتے ہیں، جو اُن کی موٹیویشن پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ یہ ذہن عموماً اے ڈی ایچ ڈی (Attention Deficit Hyperactivity Disorder) والوں کی عکاسی کرتا ہے۔
میرا اپنا ذہن ونڈ مائنڈ ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ میں مختلف ٹاسک کے ساتھ نمٹتی رہتی ہوں۔ یوں میری موٹیویشن برقرار رہتی ہے۔ مَیں صرف ایک ہی کام پر فوکس نہیں کرسکتی۔
٭ فائر مائنڈ (Fire Mind):۔ یہی وہ ذہن ہے جس کی ماڈرن سرمایہ دارانہ دنیا میں پوجا کی جاتی ہے۔ کیوں کہ یہی وہ ذہن ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ ایک ہی کام پر بِنا موٹیویشن کم ہوئے ڈٹا رہتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں اور ہم سب اُن کی طرح بننے کے لیے موٹیویشن والی وڈیوز دیکھتے ہیں اور دل میں خواہش رکھتے ہیں کہ کاش کبھی ان کی طرح مکمل طور پر موٹی ویٹید رہیں اور فوکس کو حاصل کرسکیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں کام کے دوران میں زیادہ بریک کی ضرورت نہیں پڑتی (جب کہ انھیں بریک لینے چاہئیں)، اپنے غصے اور انرجی کو اپنے ٹاسک پر جلانے والے یہی لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں کر دکھانے کا جذبہ اور کام کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، جب کہ ان کی طاقت (Stamina) اکثر جواب دے جاتی ہے، ان کی انرجی کے سامنے۔
ایسے لوگ چوں کہ بہت زیادہ کام بنا کسی بریک کے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو انھیں باقی کے لوگ جو ان سے مختلف ہوں، سست اور کاہل لگتے ہیں۔ عموماً انھیں لوگ سست اور بے وقوف لگتے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آتا کہ آخر لوگ کیوں اور کیسے موٹیویٹیڈ نہیں اپنا کام کرنے کے لیے…… جب کہ انھیں چاہیے کہ یہ دوسروں کا موازنہ اپنے ساتھ نہ کریں۔ لیکن جیسا کہ ان کی انرجی زیادہ ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب ساری انرجی لگ جاتی ہے، تب یہ جسمانی اور جذباتی طور پر تھک (Burnout) جاتے ہیں۔ کیوں کہ مسلسل موٹیویشن کے یقینا کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، لیکن پھر کچھ عرصے میں نیا ٹاسک ملتا ہے اور یہ پھر سے موٹیویٹیڈ محسوس کرتے ہیں۔ البتہ یہ ذہن سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے ہماری دنیا میں۔
٭ ارتھ مائینڈ (Earth Mind):۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ آہستہ، مستحکم اور پائیدار ذہن ہوتے ہیں……لیکن انھیں خود سے ایک ہی شکایت ہوتی ہے کہ یہ ونڈ مائنڈ کی طرح تیز اور جلدی سیکھنے والے کیوں نہیں…… اور فائر کی طرح مستقل موٹیویٹیڈ کیوں نہیں؟ یہ ذہن آہستہ سیکھتا (Slow Learner) ہے، لیکن بھولتا بھی آہستہ ہے اور انھیں اپنے کام پر عبور بھی حاصل ہوتا ہے۔ اگر ونڈ مائنڈ جلدی سیکھتا ہے، تو بھولتا بھی جلدی ہے۔
اس ذہن کے لوگوں کو چاہیے کہ خود کو سمجھیں اور وقت دیں۔ صبر بہت ضروری ہے اس قسم کی شخصیت کے لیے، لیکن انھیں دوسروں سے بھی بہت حوصلہ شکنی اور تنقید کا سامنا رہتا ہے آہستہ سیکھنے کے لیے۔ اگر دوسرے تنقید کررہے ہیں، تو کوشش یہی رہے کہ آپ خود پر زیادہ تنقید نہ کریں۔ آہستہ شروعات ہوتی ہے، لیکن جب یہ لوگ سیکھ جائیں، تو ان کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور پھر ان کی موٹیویشن بھی بڑھتی جاتی ہے…… جب کہ ونڈ مائنڈ ان کا الٹ ہوتا ہے۔ ونڈ مائنڈ کی شروعات تو بہت تیز ہوتی ہے، لیکن وقت کے ساتھ وہ ماند پڑتے جاتے ہیں۔ انھیں اپنا مائنڈ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس تھیوری کو شیئر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مغرب (خاص کر امریکہ کیوں کہ پوری دنیا کا مغرب وہی ہے) میں جس ایک مائنڈ (فائر) کی پوجا کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ سب کا ذہن ایسا ہی ہو۔ دنیا کو کسی ایک قسم کے ذہن نہیں بلکہ مختلف قسم کے اذہان کی ضرورت ہے۔ ایسا ڈاکٹر ٹیمپل گارڈن کہتی ہیں۔ ہم سب مختلف ہیں اور ہمیں خود کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارا ذہن کس طرح اور کن حالات میں بہتر سیکھتا ہے؟ یہاں موازنہ کرکے ہم اپنی نشو و نَما کو روک دیتے ہیں۔ موازنہ اگر کسی جگہ فائدہ دیتا ہے، تو ڈھیر ساری جگہوں میں ہمیں نقصان دیتا ہے۔ ہماری گروتھ کو روک دیتا ہے۔ کیوں کہ ہم خود کو سمجھنے کی بجائے دوسروں کو سمجھ کر ان کے اصولوں کو خود پر آزما رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم فیل ہورہے ہوتے ہیں، تو اور بھی مایوس ہوجاتے ہیں۔ تبھی کہتے ہیں کہ خود کو جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔