جہالت کا تصادم

(زیرِ نظر تحریر ’’ایڈورڈ سعید‘‘ (Edward Said) کے مضمون ’’جہالت کا تصادم‘‘ (Clash of Ignorance) جو اکتوبر 2001ء میں شائع ہوا، کا ترجمہ ہے، راقم)
سیموئل ہنٹنگٹن (Samuel Huntington) کا مضمون ’’تہذیبوں کا تصادم؟‘‘ خارجہ امور کے سمر 1993ء کے شمارے میں شائع ہوا، جہاں اس نے فوری طور پر حیرت انگیز توجہ اور ردعمل حاصل کیا۔ چوں کہ اس کے مضمون کا مقصد امریکیوں کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاست میں ’’ایک نئے مرحلے‘‘ کے بارے میں ایک اصل تھیوری/ تھیسز فراہم کرنا تھا، اس لیے ہنٹنگٹن کی دلیل کی شرائط غالب طور پر بڑی، جرات مندانہ، حتیٰ کہ بصیرت سے بھرپور لگ رہی تھی۔ اس کی نظر پالیسی سازی کی صفوں میں حریفوں، فرانسس فوکویاما، جیسے نظریہ سازوں اور ان کے ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ (End of History) کے نظریات کے ساتھ ساتھ ان گروہوں پر تھی جنھوں نے عالمگیریت اور قبائلیت کے خاتمے اور ریاست کے انتشار کا جشن منایا تھا، لیکن وہ، ہنٹنگٹن کے نزدیک اس نئے دور کے صرف کچھ پہلوؤں کو سمجھ پائے تھے۔ ہنٹنگٹن ’’اہم، واقعی ایک مرکزی، پہلو‘‘ کا اعلان کرنے والے تھے کہ ’’آنے والے سالوں میں عالمی سیاست کیا ہونے کا امکان ہے۔‘‘ اُس نے بلا جھجک اس پر زور دے کر کہا: ’’یہ میرا مفروضہ ہے کہ اس نئی دنیا میں تنازعات کا بنیادی ذریعہ بنیادی طور پر نظریاتی یا بنیادی طور پر معاشی نہیں ہوگا۔ بنی نوع انسان کے درمیان عظیم تقسیم اور تنازعات کا غالب ذریعہ ثقافتی ہوگا۔ قومی ریاستیں عالمی معاملات میں طاقت ور کرادر کی حامل رہیں گی، لیکن عالمی سیاست کے بنیادی تنازعات قوموں اور مختلف تہذیبوں کے گروہوں کے درمیان ہوں گے۔ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر حاوی ہوجائے گا۔ تہذیبوں کے درمیان فالٹ لائنز (Fault lines) مستقبل کی جنگوں کی لکیریں ہوں گی۔‘‘
اس کے بعد آنے والے صفحات میں زیادہ تر دلائل ہنٹنگٹن کے ’’تہذیب کی شناخت (Civilizational Identity) ” اور ’’سات یا آٹھ بڑی تہذیبوں کے درمیان معاملہ‘‘ کے مبہم تصور پر انحصار کرتے ہیں، جن میں سے دو: اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعہ، اس کی توجہ کا مرکزی اور بڑا حصہ حاصل کرتا ہے۔ اس جنگ جو قسم کی سوچ میں ہنٹنگٹن معروف مستشرق برنارڈ لیوس کے 1990ء کے ایک مضمون پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جس کے نظریاتی رنگ اور تعصب اس کے مضمون کے عنوان ’’مسلم غیض و غضب کی جڑیں‘‘ سے عیاں ہے۔ دونوں مضامین میں، ’’مغرب‘‘ اور ’’اسلام‘‘ نام سے بہت پیچیدہ اور عظیم تصورات کو بڑی بے احتیاطی سے تشخص دیا گیا ہے۔ گویا شناخت اور ثقافت جیسے بڑے پیچیدہ معاملات کارٹونوں کی جیسی دنیا میں موجود ہیں، جہاں دو کارٹون پوپے (Popeye) اور بلوٹو (Bluto) ایک دوسرے کو بے رحمی سے مارتے ہیں۔ جہاں ایک ہمیشہ سے زیادہ تقدیس اور مکاری سے اپنے مخالف پر بالادستی حاصل کر تا ہے۔ یقینی طور پر نہ ہنٹنگٹن اور نہ لیوس کے کو ہر تہذیب کی داخلی حرکیات اور تکثریت (Plurality) کو سمجھنے کے لیے زیادہ وقت ملاہے یا اس حقیقت کو جاننے کے لیے کہ زیادہ تر جدید ثقافتوں میں سب سے بڑا مقابلہ ہر ثقافت کی تعریف یا تشریح سے متعلق ہے۔ ان کے ہاں اس ناخوش گوار امکان کو پرکھنے کے لیے بھی وقت نہیں تھا کہ ڈیماگوجی ( جذبات اور تعصبات کو ابھارنے) اور نری جہالت ایک پورے مذہب یا تہذیب کی اپنے طور پر نمایندگی کرنا ہے۔ مثلاً: دوئی میں یقین کے ساتھ کہا جائے کہ نہیں مغرب بس مغرب ہے، اور اسلام، اسلام (اور ان دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ اس طرح پیچیدہ، متنوع اور تکثیری تہذیبوں کو ان تنگ دامن اصطلاحات کی مدد سے واضح کیا جانا ہی نری جہالت اور تعصبات و جذبات کو ابھارنے کے علاوہ کچھ نہیں۔)
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ مغربی پالیسی سازوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ مغرب مضبوط ہو اور باقی تمام اقوام خصوصاً اسلام کو نکیل ڈالے۔ زیادہ پریشان کن ہنٹنگٹن کا یہ مفروضہ ہے کہ اس کا نقطۂ نظر درست ہے، باوجود اس کے وہ تمام عام وابستگیوں، پیچیدگیوں اور پوشیدہ وفاداریوں سے ہٹ کر پوری دنیا کا جائزہ لینا چاہتا ہے۔ وہ باور کرانا چاہتا ہے کہ گویا باقی سب لوگ ان جوابات کی تلاش میں سرگرداں گھوم رہے ہیں، جو اُسے پہلے ہی مل چکے ہیں۔
درحقیقت، ہنٹنگٹن ایک نظریہ ساز ہے اور کو ئی بھی نظریہ گڑھ لیتا ہے۔ وہ کوئی ایسا شخص جو ’’تہذیب‘‘ اور ’’شناخت‘‘ کو ان چیزوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہے، جو وہ نہیں ہیں۔ وہ ان کو بند، مہر بند اشیا کی مانند بناتا ہے کہ وہ کبھی متحرک نہ رہے ہوں اور ان میں بے شمار اندرونی اور مخالف دھارے نہیں رہے ہوں۔ وہ شناخت اور تہذیب کو تاریخ سے الگ کرتا ہے، جہاں صدیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔
ہنٹنگٹن یہ خاطر میں ہی نہیں لاتا کہ تاریخ نے مذہبی جنگوں اور سامراجی یلغار کو روکا بھی ہے۔ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ انسانی تاریخ تہذیبوں اور شناختوں کے بیچ روابط، تبادلہ، اشتراک اور افزایش کا ذریعہ بھی رہی ہے۔ تاریخ کے اس پہلو کو نظرانداز کرکے مضحکہ خیز اور کسری طریقے سے جنگ کو اُجاگر کرنے کی جلدی میں آگے بڑھا جاتا ہے کہ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ حقیقت ہے۔ جب 1996ء میں اسی عنوان سے اپنی کتاب شائع کی، تو ہنٹنگٹن نے اپنے دلائل کو کچھ اور باریک بینی اور بہت سے حاشیے دینے کی کوشش کی۔ تاہم اُس نے جو کچھ کیا خود کو مزید اُلجھایا اور یہ ظاہر کیا کہ وہ کیسا گھٹیا لکھاری اور بھدا مفکر تھا۔
مغرب بمقابلہ بقیہ دنیا (سرد جنگ کی طرح کی اصلاح) کا بنیادی نمونہ وہی رہا اور یہی وہ چیز ہے جو 11 ستمبر کے خوف ناک واقعات کے بعد سے بیشتر طور پر مکارانہ اور مخفی یا واضح طور پر زیرِ بحث رہا ہے۔ انتہا پسند عسکریت پسندوں کے ایک چھوٹے گروپ کی طرف سے بڑے پیمانے پر قتل کو ہنٹنگٹن کے نظریے کے ثبوت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھنے کی بجائے کہ یاصل ماجرا کیا ہے۔ مجرمانہ مقاصد کے حصول کے لیے بڑے نظریات کو پاگل جنونیوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے حوالے کرکے باقیوں کو اسی عدسے سے دیکھا گیا۔ اس عمل کو بڑی سطحی اور ڈھیلا لیا گیا۔ بین الاقوامی معروف شخصیات جیسے سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے لے کر اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی تک نے اس چھوٹے گروہ کی کارروائی کو اسلام کے مشکلات سے تعبیر کیا۔ "Silvio Berlusconi” نے تو ہنٹنگٹن کے نظریات کو مغرب کی برتری کو ثابت کرنے کے لیے چیخ چیخ کر استعمال کیا اور طعنے دیے کہ کس طرح ہمارے پاس موزارٹ اور مائیکل اینجیلو ہیں (یعنی تہذیب یافتہ ہیں) اور ان کے پاس نہیں۔
(برلسکونی نے ’’اسلام‘‘ کی توہین پر نیم دل سے معافی مانگ لی ہے، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے