قارئین! ہٹلر کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔ جرمنی کا کسی زمانے میں مشہور آمر گزرا ہے۔ وہ ’’نازی پارٹی‘‘ کا سربراہ اور پھر جرمنی کے مطلق العنان حکم ران اور آخر میں جرمنی کے زوال کا ذمہ دار بھی تھا۔
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
سنہ 2012ء کی بات ہے جب مَیں نے جرمنی میں کئی ایک لوگوں سے پوچھا تھا کہ ہٹلر جو کبھی آپ لوگوں کا ہیرو تھا، اب نفرت کا نشانہ کیوں ہے؟ اُن میں سے اکثر نے جواب دینے سے انکار کیا۔ کیوں کہ وہاں اب لوگ اِس بارے میں بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ البتہ نازی دور کے مظالم کو اُجاگر کرنے کے لیے سرکاری سطح پر مختلف ابلاغی صلاحیتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً اُس دور کے مظالم پر بنی ہوئی ایک فلم چلائی جاتی ہے۔ گیس چیمبر کے نام سے موجود اُس مقام کو عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے کھلا رکھا گیا ہے، جس میں مبینہ طور پر یہودیوں کو جلایا جاتا تھا، وغیرہ۔
قارئین! کہتے ہیں کہ ہٹلر نے ایک وزیر صرف پراپیگنڈا کے لیے رکھا تھا۔ اُس کا نام تھا ’’پال جوزف گوئبلز۔‘‘ موصوف کو ابلاغیات کی دنیا میں ’’پراپیگنڈا کا باپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ گوئبلز کا کام صبح تا شام فقط سچ اور جھوٹ کو ملا کر اپنے موقوف کو پیش کرنا تھا۔
ابلاغیاتی تحقیق کی کتابوں میں اب ’’نازی پراپیگنڈا‘‘ بطورِ مثال پڑھایا جاتا ہے کہ کس طرح یک طرفہ بیانیے نے عوامی ذہنوں کو بدلنے، اس پر قبضہ کرنے یا پراگندہ کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔
ہٹلر نے ابلاغیات اور عسکریات کے زور پر اپنا ایک سخت گیر تاثر قائم کیا تھا، مگر وقت گزرتا گیا اور ایک وقت آیا کہ تخت تختہ ثابت ہوا۔ دنیا بدل گئی اور ہٹلر ظالم کے طور پر یاد کیا جانے لگا۔ اُس کا جو وزیر تھا، جو سچ اور جھوٹ کو ملا کر ابلاغیاتی جنگ جیتنے میں مگن تھا، ناکام رہا…… اور آج ابلاغیات کی دنیا میں جہاں پراپیگنڈا کا ذکر کیا جاتا ہے، وہاں گوئبلز کا نام ضرور آتا ہے۔
قارئین! دنیا میں اور بھی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں جہاں حکومتی اور ریاستی جبر نے صحافت کو گھر کی لونڈی بننے پر مجبور کیا ہے، مگر جب بھی جبر کی رات ختم ہوئی ہے، تو سب کچھ واضح ہوا ہے اور ظالم فقط اپنے ظلم ہی کی وجہ سے یاد رکھا گیا ہے۔
پاکستان میں ویسے تو آغاز ہی سے صحافت کی لاش گل سڑ چکی ہے۔ کیوں کہ یہاں آمروں نے حرف اور قلم کی حرمت رکھنے والوں پر کوڑے برسائے ہیں، یا زندگی کی قید سے اُنھیں آزاد کیا ہے۔ نام نہاد جمہوری حکم رانوں نے خزانوں کے منھ کھول کر صحافیوں کو خریدا ہے…… لیکن جو نہ بکے اور نہ جھکے، تو اُن کو سبق سیکھایا گیا ہے یا معروف معنوں میں ان کا ’’سافٹ وئیر‘‘ ایک طرح سے ’’اَپ ڈیٹ‘‘ کروایا گیا ہے۔
پھر جب ملکی صحافت سیٹھوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئی، تو آزادیِ اظہارِ رائے مذاق بن کر رہ گئی۔ کیوں کہ ریاستی جبر کو بے باک صحافی تو سَہ سکتا ہے، لیکن مبینہ گیس چور، بجلی چور اور ٹیکس چور سیٹھ نہیں۔ لہٰذا ریاست اور حکومت کے لیے ان کو کنٹرول کرنا سب سے آسان کام ہے۔
وطنِ عزیز میں آج کل پھر صحافت بھیگی بلی بن چکی ہے؟ کیوں کہ ایک عوامی راہنما (عمران خان) کے میڈیائی کوریج پر غیر علانیہ پابندی ہے۔ اگرچہ حکومت، ریاست اور عوام کی اکثریت جب بھی سیاست پر بات کرتی ہے، تو اس عوامی راہنما کا ذکر کیے بغیر بحث مکمل نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں سوال یہ ضرور اُٹھتا ہے کہ ریاستی ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلوں اور اخبارات کو ڈرا دھمکا کر پابند کیا جائے کہ کسی سیاسی راہنما کا میڈیا میں ذکر نہ کیا جائے…… لیکن کیا سوشل میڈیا کی موجودگی اور ابلاغیات کی بدلتی جدید شکلوں کی دست یابی میں یہ ممکن ہے کہ کسی کا مکمل ’’بلیک آوٹ‘‘ کیا جائے؟ جس طرح ہٹلر اور گوئبلز کا پراپیگنڈا آخرِکار ناکام ہوا، اُسی طرح یہاں بھی کسی راہنما کا میڈیائی بائیکاٹ آخرِکار ناکام ہی ہوگا۔
مگر ایسے میں صحافت کی حقیقت کیا رہ جائے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاست کی وقعت کیا رہ جائے گی؟ المیہ یہ ہے کہ یہاں ریاستی اور حکومتی سطح پر کبھی بھی ابلاغیات کے جدید ترین اُسلوب اور خطوط پر استواری نہیں کی گئی۔ وگرنہ وہ کام کبھی نہ کیے جاتے جو دنیا میں ناکام ٹھہرے ہیں، یعنی ’’کسی پر پابندی لگانا‘‘۔
سیاسی ابلاغیات کا توڑ ابلاغیات ہی ہے۔ مکالمہ، مباحثہ اور دلیل ہی سے بیانیہ تشکیل دے کر اپنے مخالف کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ اگر صرف ابلاغی پابندی سے کوئی گروہ، پارٹی یا نظریہ ختم ہوسکتا، تو آج کسی بھی کالعدم گروہ یا جماعت کا نام سننے کو نہ ملتا۔ دور کیوں جایا جائے، کیا کالعدم تحریکِ طالبان کا نام اور کام ختم ہوگیا؟ اگر نہیں، تو پھر سوچیے کہ ابلاغیاتی بلیک آوٹ سے کوئی پارٹی کیسے ختم ہوسکتی ہے……! اور وہ بھی اس صورت میں جب اُس پارٹی کے پاس ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال کے لیے تمام وسائل دست یاب ہوں، اور اُن کا بہترین استعمال بھی جانتی ہو۔ اس لیے میڈیائی پابندی سے زیادہ موثر میڈیائی ہینڈلنگ اور پُراثر بیانیہ ہے، جس میں مکالمے کی گنجایش ہو، مگر یہ تب ہوسکتا ہے جب آپ واقعی مسئلہ حل کرنا چاہتے ہوں۔ اگر صرف یک طرفہ پراپیگنڈا کرکے ہٹلر کی طرح جبر کے راج کو دوام دینا ہے، تو ابھی سے لکھ لیں، یہ تجربہ ناکام ہوگا۔ کیوں کہ آخر میں ہٹلر اور گوئبلز دونوں ناکام ہوئے تھے اور آج جرمنی میں اُن کا نام لینے والوں سے بھی لوگ نفرت کرتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
