مردِ قلندر مفتی عبدالشکور کی یاد میں

قارئین، جب کسی عالمِ با عمل کی رحلت کی خبر سننے کو ملتی ہے، تو ہر ذی شعور انسان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو، پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج وہ کسی عزیزِ من یا پھر سرپرست کی شفقتوں سے محروم ہوگیا ہو۔ جیسے چلچلاتی دھوپ میں بادلوں کا سایہ سر سے ہٹ جائے، زمین قدموں کے نیچے سے سرک جائے اور بہاریں روٹھ کر چلی جائیں۔ پھر سینہ غم سے تنگ محسوس ہوتا ہے۔ آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیں کہ ایسی شخصیات کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران سی لگنے لگتی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں ڈھیر سارے عظیم علما کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور ہر عالم کی موت کے بعد محسوس کیا ہے کہ مدتوں تک اُن کا خلا پورا نہیں ہوپائے گا۔
اختر حسین ابدالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akhtar-hussain/
قارئین، 15 اپریل 2023ء کو رات 9 بجے کے قریب میڈیا پر ایک الم ناک خبر دیکھنے میں آئی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہ نما اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور صاحب شہرِ اقتدار میں ایک ٹریفک حادثے میں شہید ہوگئے۔
یکم جنوری 1968ء کو صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع لکی مروت کے علاقے کوٹکہ عمل دین میں ایک قدامت پسند مذہبی خاندان کے چشم و چراغ سردار خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی میں حاصل کرنے کے بعد مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے اکوڑہ خٹک کی مشہور دینی درس گاہ دارالعلوم حقانیہ چلے گئے، جہاں سے 1993ء میں اسلامک سٹڈیز میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ موصوف حیدرآباد کی مشہور شاہ ولی اللہ اکیڈمی میں بھی زیرِ تعلیم رہے اور وہاں سے فلسفہ میں ماسٹرز کیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد 1995ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے تخصص فی الفقہ میں سند حاصل کی۔ 1997ء سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ وہ نہ صرف پشاور بلکہ بنوں، رحیم یار خان اور دیگر شہروں میں بھی درس و تدریس کے لیے باقاعدگی سے جایا کرتے تھے۔ سال 2002ء میں پشاور کے پلوسئی علاقہ کی ایک جامع مسجد کے خطیب مقرر ہوئے اور آخری وقت تک پشاور میں اپنے قیام کے دوران میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط اور استدلال میں منفرد ذوق رکھتے تھے۔
تعلیم و تعلم کے ساتھ ساتھ بعض دینی اور سیاسی تحاریک میں بھرپور شرکت کی اور عوام کی خوب صورت انداز میں رہ نمائی فرمائی۔ تحریکِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں اُن کی خدمات نمایاں ہیں۔ شخصیت بڑی بارُعب اور خطاب انتہائی پُراثر ہوا کرتا تھا۔ سادگی اور خلوص شخصیت میں کھوٹ کھوٹ کر بھری تھی۔
قارئین، جیسا کہ پہلے رقم کیا کہ مفتی عبدالشکور کا تعلق ایک قدامت پسند گھرانے سے تھا۔ اُن کے والد بھی مذہبی شخصیت تھے، لیکن سیاست سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اپنے والد اور خاندان کے دیگر افراد کے برعکس مفتی عبدالشکور اپنے دورِ طالب علمی ہی میں جمیعت علمائے اسلام کے طلبہ ونگ (جمعیت طلبۂ اسلام) کے سرگرم رکن رہے۔
مفتی صاحب ایک درویش صفت انسان تھے، جو لکی مروت کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے اُٹھ کر اپنی محنت اور لگن سے 2018ء میں فاٹا کی نشست NA-51 پر 21 ہزار 896 ووٹ لے کر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اپریل 2022ء میں عمران خان کے خلاف جب تحریکِ عدمِ اعتماد کام یاب ہوئی، تو موصوف وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وزیر مقرر ہوئے۔ وفاقی وزیر بننے کے بعد بھی لکی مروت میں اپنے آبائی گھر میں رہتے تھے، جو ایک کچا مکان ہے۔ مٹی کے گھروں کو مرمت کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے جب بھی ایسی نوبت آتی، تو مرمت کا کام بھی خود ہی کیا کرتے۔
مفتی صاحب کے خاندان کے دیگر افراد ابھی تک لکی مروت میں رہایش پذیر ہیں، تاہم انھوں نے اپنے خاندان کو پشاور منتقل کردیا تھا، جہاں جامع مسجد کے خطیب ہونے کے ناتے مسجد کی جانب سے خطیب کے لیے مختص شدہ گھر میں رہتے تھے۔
قارئین، آپ خود اندازہ لگالیں کہ مسجد کے خطیب کا گھر کتنا بڑا ہوسکتا ہے؟ انھوں نے سیاست سے دولت نہیں کمائی بلکہ لوگوں کی خدمت کی۔ سیاست کے ساتھ درس و تدریس کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے اور مختلف مدارس میں فقہ پڑھا تے تھے۔ ان کی قابلیت اور محنت کو دیکھ سے پارٹی نے انھیں قبائل کا امیر بنایا اور انھوں نے 2018ء میں تحریکِ انصاف کے مقابلے میں ایف آر کی سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ وفاقی وزیر اور چار سال سے زائد ممبر قومی اسمبلی رہنے کے باوجود ان کی ملن ساری، چال ڈھال اور طرزِ زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قومی خزانے کے ساتھ اصل انصاف کس نے کیا ہے……!
قارئین، ان کی وفات پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے برکت اللہ مروت نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ مفتی صاحب جب پہلی بار ترکی آئے، تو میری اُن سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے جیب سے سادہ ’’نوکیا‘‘ موبائل نکال کر مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ میرے اس موبائل میں سگنل نہیں۔ مجھے ترکی میں ایک ہفتہ ہوگیا ہے، لیکن سگنل نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی بھی پاکستانی سے رابطہ نہیں ہوا۔ مَیں نے اُن کو موبائل واپس کرتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب! یہ موبائل اور پاکستانی سم یہاں کام نہیں کر تے۔ مَیں حیرت میں پڑگیا کہ ایک پاکستانی پارلیمنٹرین اور وفاقی وزیر جو اس دورِ جدید میں باہر ممالک میں دوروں پر جاتے ہوئے ایک سادہ موبائل استعمال کررہے ہیں۔
اسی طرح وزیرِاعظم میاں محمد شہباز شریف نے اسمبلی فلور پر مفتی صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ جب انتہائی اخلاص کے ساتھ دل کی بات زبان پر لاتے ہیں، تو وہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہے۔ جب ہم نے حکومت سنبھالی، تو خراب معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر مَیں نے وفاقی کابینہ سے ماہانہ تنخواہ اور سرکاری مراعات نہ لینے کی درخواست کی۔ جس کو تمام وفاقی وزرا نے مانتے ہوئے تنخواہ اور مراعات نہ لینے کا عہد کیا…… لیکن مولانا صاحب نے بڑی بے باکی سے کہا کہ وزیرِ اعظم صاحب، معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی ماہانہ تنخواہ جو تقریباً 1 لاکھ 60 ہزار روپے بنتی ہے، وصول کروں گا۔ کیوں کہ اس تنخواہ کے بغیر میرا گزارا ممکن نہیں۔
قارئین، وزیر بننے کے بعد خاص طور پر حج انتظامات کی نگرانی کے باعث مفتی صاحب کی شہرِ اقتدار میں مصروفیات کافی بڑھ گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے ان کا پشاور آنا کم ہوگیا تھا۔ رواں سال حج کے لیے قرعہ اندازی نہ کرنا اور تمام درخواست گزاروں کو حج پر بھیجنے کا فیصلہ بھی ان کا تھا۔
مفتی صاحب کے جنازے میں لکی مروت اور کوٹکہ عمل دین کی سرزمین نے ایک عجب منظر دیکھا۔ جنازے میں ہزار ہا انسانوں کی شرکت دیکھ کر دل کو شرحِ صدر حاصل ہوا کہ دنیا داروں اور مادہ پرستوں کے جنازوں میں لوگ مادی اغراض اور مفادات کے لیے آتے ہیں…… لیکن مفتی صاحب جیسی شخصیات کے سفرِ آخرت میں شمولیت کے لیے لوگ بغیر کسی غرض سے محبت اور عقیدت کی وجہ سے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ جنازے میں ملک بھر سے صرف عوام ہی کی کثیر تعداد شریک نہ تھی بلکہ جید علما، سیاست دان، سول و عسکری قیادت کی بھی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ جنازے کے دوران میں ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر شریکِ جنازہ خلوصِ دل سے مفتی صاحب کے درجات کی بلندی کے لیے دعا گو تھا۔
مرحوم مفتی عبدالشکور وفاقی وزیر برائے مذہی اُمور کے ساتھ کسی شخص کا سیاسی اور مسلکی اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن اُن کی سادگی، للہیت اور علم و فضل پر ہر کسی کو رشک آتا ہے۔ کیوں کہ یہ اُن کا علم ہی تھا کہ شہادت کے بعد سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سمیت دیگر عرب ممالک کے سفیروں نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی رہایش گاہ آکر ان سے مفتی عبدالشکور کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کیا۔ جاتے جاتے دعا ہے کہ اللہ تعالا مفتی صاحب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے