"ڈینڈی بوائے” (شخصی خاکہ)

بچپن کی بات ہے، ہمارے گاؤں میں ایک بوڑھی اماں ہوا کرتی تھی۔ اس کے لخت جگر کا نام حنیف ہوا کرتا تھا۔ وہ جب بھی اُسے اُونچی آواز دے کر پکارتی، تو ہمیشہ اپنی سادگی اور بھول پن کی وجہ سے نحیف کہتی تھی…… یعنی ’’وے نحیف…… وے نحیف پتر!‘‘
مگر ہمارا دوست حنیف تو ہے مگر ’’نحیف‘‘ بالکل نہیں۔ جس کا پورا نام محمد حنیف زاہد ہے۔ چھے فٹ قد کاٹھ کا مالک، ویل بلٹ، تاب ناک چہرہ، ہمہ وقت بنا ٹھنا، ایک ریڈی میڈ ایک ’’ڈینڈی بوائے‘‘ ہے۔ گھر کے باہر بند گیٹ کے دو پرتوں کی طرح فلیٹ، چوڑی اور صحت مند مونچھیں ناک اور منھ کی حفاظت کے لیے چوکی دارہ کرتی ہمہ وقت تیار ناک اور منھ کے درمیان حد فاصل کا کام کرتی ہیں۔ سڈول باربی ڈول جسم، پچاس فی صد خزاں رسیدہ سر مبارک، سیاہ نشیلی آنکھوں میں مستی کے ڈورے…… آگے پیچھے سے ایک جیسے حسین و جمیل۔
مَیں نے اُس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جاسکتا تھا
مَیں نے اُس کو اتنا چاہا جتنا چاہا جتنا چاہا جاسکتا تھا
خالد حسین کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
فرماں برداری اُس کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ماں باپ کا فرماں بردار ہونا تو بہت سے لوگوں کے حصے میں آتا ہے…… مگر اپنی زوجہ محترمہ کی وفاداری ہر کسی کے نصیب میں کہاں……! یہ گوہرِ نایاب ہر ایرے غیرے کے حصے میں نہیں آتا۔ اللہ پاک نے دونوں میاں بیوی میں ڈھیروں پیار لکھ دیا ہے، اور یہ پیار ہر گز ہر گز یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے۔مثلاً: بھابھی اگر کہے کہ حنیف ابھی تندور سے روٹیاں لے کر آؤ۔ تو وہ ان کے یہ پیار بھرے الفاظ کبھی رد نہیں کرتے۔ فوراً جا کر تندور سے تڑپتی پھڑکتی گرما گرم روٹیاں لا کر ان کے سامنے سجا دیتے ہیں۔
ایم سی ماڈل ہائی سکول میں ٹیچر کے طور پر متعین ہیں۔ ان کا کام مستقبل کے معماروں کو پڑھا لکھا کر ایک اچھا شہری اور بہترین انسان بنانا ہے، مگر خود گھر میں اب بھی بھابھی ان کی (ٹیوشن کی) کلاس لیتی ہے ۔
یاروں کا یار، دوستوں کی آنکھ کا تارا
حنیف ہمارا حنیف ہمارا
تعلیمی بلندیوں کو چھوتے ہوئے ایم فل کر ڈالا ہے، مگر تعلیمی تشنگی ایسی کہ ابھی ختم ہی نہیں ہوتی۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
ایم فل کرنے کے بعد کوئی اور ڈگری جو کہ پاکستان میں پائی جاتی ہو، اُسے پانے اور کر گزرنے کا مصمم ارادہ اور جذبہ اپنے دل میں لیے کسی اگلے ’’فل‘‘ کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔
خدانخواستہ پیپر مارکنگ پر ڈیوٹی لگ جائے، تو 70، 80 پیپر 3، 4 گھنٹے میں پھڑکا دینا اُن کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
عزت کرنے والے منکسر المزاج شخص ہیں۔ پہاڑوں کی یاترا کے شیدائی ہیں۔ پہاڑوں کی یاترا کا سیزن شروع ہوتے ہی حیلے بہانے سے ہر وقت پہاڑوں اور پہاڑوں پر جانے والے دوستوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بائیکر بننے کا جنون سر پر سوار ہوا، تو پچھلے سال قاسم سلدیرا کے ساتھ مل کر بورے والا سے چل کر کمراٹ، جندرا، باڈ گوئی اور سوات کا دو اڑھائی ہزار کلومیٹر سفر بائیک پر طے کر آئے۔ دھن کے پکے…… ان کا فسوں پہاڑوں کا جنوں ہے۔ اب ان کا اگلا ٹارگٹ کچھ دوسرے دوستوں اور کولیگز کو خراب کرکے اس کام پر لگانا ہے۔ سارا سارا دن پہاڑوں وادیوں اور مختلف جھیلوں کی باتیں کر کرکے ان کی عادتیں بگاڑنے کی مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں۔
پتھر پہ بھی پانی گر پڑتا رہے مسلسل
آخرِکار اُس کی بھی گھس جاتی ہے سل
ایک سال کی محنتِ بسیار کے بعد آخرِکار اپنے ایک عدد کولیگ محمد نواز صاحب کو تقریباً خراب کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ وہ اِمسال چپر سان ویلی جانے کے لیے ہ مکمل تیار دکھائی دیتا ہے۔ نخرا ان کی گھٹی میں شامل نہیں۔ ہمہ وقت ہر حال میں دوستوں کے ساتھ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔ قدرت نے انھیں ’’بلٹ اِن نخرا فری پیکیج‘‘ سے نوازا ہے ۔
سرو قدی کا عالم یہ ہے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے، میری اُن سے فون پر بات ہوئی، تو کہنے لگے کہ مَیں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ انگور کھانے جا رہا ہوں۔
مَیں نے کہا: ’’مگر انگور تو ابھی مارکیٹ میں نہیں آئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’ابھی کچھ دن پہلے میں خود اُس کے ہاں انگوروں کا ڈھیر دیکھ کر آیا ہوں……!‘‘
شام کو مَیں نے اُن سے پوچھا کہ انگور کھٹے تو نہیں تھے ؟ کہنے لگا کہ ’’نہیں کھٹے تو نہیں تھے، مگر تھے تربوز!‘‘
’’تربوز……؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔
’’جی ہاں!جب مَیں بیٹھ کر انھیں کھانے لگا تو وہ تربوز نکلے۔ جب مَیں نے انھیں کھڑے کھڑے دیکھا تھا، تو وہ مجھے انگور لگے تھے۔‘‘
حنیف ایک بہترین کُک بھی ہیں۔ بہت محنت اور دل جمعی سے تمام دوستوں کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں ۔ یوں ٹور میں وہ ہماری ’’بے بے‘‘ ہوتا ہے۔ جس طرح گھر میں سب بچے روٹی اور سالن کے حصول کے لیے اپنی بے بے (ماں) کو آوازیں دیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی سبھی ٹور فیلو اسے آوازیں دے دے کر کہتے ہیں: ’’مجھے بھی دو ……مجھے بھی دو!‘‘
جب اُن کے ہاتھ میں ڈوئی ہوتی ہے، تو اُن کا ہر کوئی ہوتا ہے ۔ اب اُن کی مرضی کہ جسے اُن کا جی کرے دے…… یا جسے جی کرے نہ دے۔ یعنی کسے بھوکا رکھنا اور اسے رجانا ہے۔ یہ اس کی اپنی صواب دید پر ہوتا ہے…… مگر ایک اچھی ’’بے بے‘‘ کی طرح وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے۔ خود بھوکا رہنا گوارہ کرلیتے ہیں، اپنے حصے کا کھانا بھی دوسرے دوستوں کو دے دیتے ہیں…… مگر کسی کو ہر گز ناراض نہیں کرتے۔
لین دین کے معاملے میں مرکز قومی بچت کی وہ سکیم ہیں…… جس میں رقم جمع کرا دی جائے، تو 5 سال کے بعد بھی کوئی منافع تو کجا، اصل زر بھی مختلف ٹیکسوں کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہو۔
راہ رستے میں چلتے چلتے یوں ہی کوئی دوست مل جائے، تو اُسے کچھ کھائے پیے بغیر نہیں جانے دیتے۔ تنگی تکلیف میں بھی اس تنگی کا ذکر زباں پر نہیں لاتے۔
صابر و شاکر ہیں…… اے آر وائی والا صابر شاکر نہیں بلکہ اصل صابر و شاکر …… اُن کا کہنا ہے کہ
پی جا ’اغیار‘ کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
ان کی خوش لباسی اور خوش خوراکی کو دیکھتے ہوئے پاکپتن سے کنگ آف ٹریکرز جناب مظہر فرید بھائی نے انھیں ’’ڈینڈی بوائے‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ بورے والا ٹریکرز گروپ کی شان اور مان ہیں۔ ان کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی گیٹ ٹو گیدر ادھورا ادھورا سا لگتا ہے ۔
ٹھیک 9 بجے گھر میں چیف آف ہاؤس ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے مارشل لا کا نفاذ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس نے ان سے بات کرنی ہو، یا ملاقات کرنی ہو…… وقتِ مقررہ سے پہلے پہلے کر سکتا ہے۔ اِس قانون کی دفعہ 37 کے تحت وقتِ مقررہ کے بعد ٹیلی فون کے سننے اور استعمال پر بھی پابندی لاگو ہو جاتی ہے۔
تمام دوستوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ سب دوست اُن سے ملنے کو بے تاب رہتے ہیں اور وہ خود بھی ملن کو ہمیشہ بے تاب ہوتے ہیں۔ کوئی دوست بسا اوقت زیادتی بھی کرلے، تو برداشت اور در گزر سے کام لیتے ہیں۔ (نوٹ، یہ وہ والی زیادتی نہیں جس کی طرف آپ کے ذہن کے کسی کونے میں بیٹھا کوئی ابلیس اشارہ کر رہا ہے۔)
چوہدری برادران کی ’’مٹی پاؤ پالیسی‘‘ پر کار فرما ہو کر زندگی گزارنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ روزانہ تقریباً سبھی دوستوں کو فون کرکے اُن کی خیریت دریافت کرنا، اُن سے گپ شپ لگانا ان کی عادت بن گئی ہے۔ دل کے کھرے، سچے اور سُچے انسان ہیں ۔ تلخ سے تلخ گھریلو واقعات دوستوں سے شیئر کرلیتے ہیں۔
قدرتِ کاملہ نے ایک انتہائی شفیق، باصلاحیت، ایمان دار اور محنتی باپ کا سایہ ’’اللہ دتہ زاہد‘‘ کی صورت میں عطا فرمایا ہے…… جو علم و حلم کے شیریں فروٹ سے لدا ایک ایسا عظیم درخت ہیں جس کا ثمر انھوں نے دونوں ہاتھوں سے توڑ توڑ کر کھایا ہے۔
اُن کے والدِ محترم خود بھی ایک باصلاحیت، قابلِ احترام اور شفیق النفس انسان اور استاد تھے۔ انھی کے نقشِ قدم پر چل کر حنیف زاہد نے نہ صرف اعلا تعلیم حاصل کی، بلکہ اپنی محنتِ شاقہ سے تعلیمی میدان میں اپنا ایک خاص مقام بھی بنا یا…… اور آج سبھی انھیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عروج ہو تجھے ایسا نصیب دنیا میں
کہ آسماں بھی تری وسعتوں پہ ناز کرے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے