سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ فیس بُک کے ذریعے کامریڈ مظہر آزاد کی وال پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی (خوشحال کاکڑ گروپ) کے شریک چیئرمین محترم مختار یوسف زئی ایک جگہ عوام سے مخاطب ہیں اور بغیر کسی لگی لپٹی کے ریاستی اداروں کو خبردار کر رہے ہیں کہ ’’اب کی بار سوات میں کسی قسم کا کھیل برداشت نہیں کیا جائے گا!‘‘
کامریڈ امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
محترم آگے کہتے ہیں کہ گوجر قوم کے بعض راہ نماؤں (سبھی نہیں) کو ایک آڈیو پیغام ملا ہے جس میں ایک شخص خود کو میجر رینک کا ’’آفیسر‘‘ ظاہر کرتا ہے۔ مجوزہ ’’میجر صاب‘‘ نے اپنے آڈیو پیغام میں گوجر قوم کے راہ نماؤں سے اپیل کی ہے کہ ہمارے کچھ بندوق برداروں کو پناہ دی جائے۔ ان کے کھانے پینے اور اسلحے کی فکر سے گوجر قوم آزاد ہوگی۔
محترم مختار یوسف زئی ویڈیو خطاب میں مزید کہتے ہیں کہ ہم اپنے گوجر بھائیوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ زمین ہم سب کی ماں ہے، چاہے وہ پشتون ہوں، گوجر ہوں، کوہستانی ہوں یا کوئی اور…… ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہے۔ اگر ہمارے ایک دوسرے سے گلے شکوے ہیں، تو آئیں! مل بیٹھ کر انھیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ کسی اور کے کہنے پر ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں۔
ویڈیو کے آخر میں محترم اس نکتے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہلِ سوات کو چاہیے کہ اپنے کان کھڑے کریں۔ کھیل وہی پرانا ہے مگر اسے نئے انداز سے کھیلا جائے گا۔ اس لیے ہر چھوٹے بڑے کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ ورنہ بعد میں کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
قارئینِ کرام! علامہ محمد اقبال نے شاید ایسے ہی کسی موقع پرسرد آہ بھر کر کہا ہوگا کہ
آگ ہے، اولادِ ابرہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
ایک نئے امتحاں کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سوات کے کئی علاقوں سے دبے دبے لفظوں میں یہ خبریں ملنا شروع ہوگئی ہیں کہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کی طرف سے بھتے کی پرچیاں گردش میں ہیں۔ نیز عجیب وضع قطع کے لوگ گلی کوچوں میں پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر اِس وقت کسی کے ذہن میں یہ سوال انگڑائیاں لے رہا ہو کہ ’’مملکتِ خداداد پاکستان‘‘ کے بظاہر ’’آزاد‘‘ شہری کی حیثیت سے سب سے پہلے مجھے کیا کرنا چاہیے؟ تو مجھ ناچیز کا جواب ہوگا کہ سب سے پہلے اپنی آنکھیں بند کرکے گہری سانس لیں۔ اُس کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر خود کلامی کا سہارا لیتے ہوئے خود سے پوچھیے کہ ہمارے گھر کے قریب ترین قبرستان میں کتنی قبریں ایسی ہیں جن میں کسی مقصد کے تحت اپنی جان دینے والے لوگ دفن ہیں؟ خود سے پوچھیے کہ کیا کل کو (خاکم بدہن) کسی بم دھماکے یا اندھی گولی کا نشانہ بن کر بالفاظِ دیگر ’’ضائع‘‘ ہوکر کوچ کرنا ہے یا کسی ظلم کے خلاف آواز اُٹھا کر بقولِ احمد فراز ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے‘‘ کے مصداق امر ہونا ہے……؟
اس عمل میں اگر ایک لمحے کے لیے بھی دل بیٹھتا ہوا محسوس ہو، تو یہ جان لیں کہ
برحق ہے موت اگر تو برحق حیات بھی
یوں جیتے جی تو موت کی ہیبت سے مر نہ جا
میرا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ جہاں تخریب کار سر اُٹھاتے ہیں، وہاں قدرت تعمیری جذبہ رکھنے والوں کو بھی پیدا کرتی ہے۔ فارسی کی وہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’ہر فرعونے را موسیٰ و ہر نمرودے را پشہ۔‘‘
’’سوات اولسی پاسون‘‘ کے راہ نما عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ سے اس بابت بات ہوئی، تو کہنے لگے کہ اس حوالے سے ’’پاسون‘‘ کے دوستوں کی ایک میٹنگ بلوائی گئی ہے۔ جلد ہی باہمی مشاورت سے لایحۂ عمل طے کریں گے اور ایک نئے عزم کے ساتھ کمر باندھیں گے۔
واضح رہے کہ چند ماہ قبل جب اہلِ سوات کی نبض چیک کی جا رہی تھی، تو جواباً وہ ردِ عمل دیکھنے کو ملا تھا کہ چیک کرنے والوں کی انگلیاں جل گئی تھیں۔ برسبیلِ تذکرہ، کبل کے مظاہرے میں ایک 30، 35 سالہ جوان اپنے دو بیٹوں (جن کی عمریں بہ مشکل تین اور پانچ سال بالترتیب ہوتی ہوں گی) کے ہم را ہ ان گناہ گار آنکھوں سے دیکھا۔ وہ ایک پوسٹر ساتھ لایا تھا جس پر ہر قسم کی دہشت پھیلانے والوں کے خلاف نعرہ درج تھا۔ وہ اپنے تین سالہ جگر گوشے کو مذکورہ پوسٹر تھامنے کی مشق کرا رہا تھا کہ اسی اثنا میں میرے کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر رہتی دنیا تک قید کرلیا۔ مَیں دوسرے ہی لمحے اُس کے پاس گیا اور پوچھا: ’’محترم! اتنے معصوم بچوں کے ساتھ مظاہرے میں شرکت کی وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘ کہنے لگا: ’’جن خراب حالات سے مَیں تیرہ چودہ سال قبل گزرا ہوں، ہر گز اُن سے اپنے جگر گوشوں کو گزارنا نہیں چاہوں گا۔‘‘
تین چار ماہ قبل جو تاریخی مظاہرے ہوئے ہیں، ان کی تصاویر، ویڈیو کلپ، خبریں اور رپورٹیں اگر اُٹھا کر دیکھی جائیں، ان کا بنظرِ عمیق جائزہ لیا جائے، تواس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ ایک 3 سالہ چھوٹے بچے سے لے کر 80، 85 سالہ بوڑھے تک سب اَمن کی خاطر مصروف ترین شاہ راہوں پر امن و سکون سے بھرپور زندگی کی شمع جلائے رکھنے کی خاطر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے۔
کوئی اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ کھیلنے والا وہی پرانا کھیل ایک نئے انداز سے کھیلنے میں کامیاب ہوجائے گا اور اہلِ سوات خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے۔ ’’سوات اولسی پاسون‘‘ میں بیشتر نوجوان تعلیم یافتہ ہیں۔ بی ایس، ایم ایس، ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے لیس یہ نوجوان فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام وغیرہ کا موثر استعمال جانتے ہیں۔ اس غلط فہمی میں کوئی نہ رہے کہ 13، 14 سال قبل پھیلائی جانے والی دہشت اور اُس سے اُٹھائے جانے والے ’’فائدوں‘‘ کے لیے رچائے گئے ڈرامے کا ’’سیکویل‘‘ بنا کر جیبیں دوبارہ گرم کی جائیں گی۔ اُس کا حساب باقی ہے:
زما تڑلی لاس او ستا درنے درنے سپیڑے
یو وخت خو بہ جانانہ دا حساب کی راولمہ
قارئینِ کرام! یہ وقت کھل کر بولنے کا ہے، بلکہ چیخنے چلانے کا ہے…… اگر کوئی اتنا کم زور ہے کہ وہ بول نہیں سکتا، تو اُسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ بولنے والوں کا حوصلہ پست کرتا پھرے۔ جو بول نہیں سکتے، وہ گھریلو کام کاج میں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا ہاتھ بٹائیں اور جو بولنے والے ہیں، وہ سر پر کفن باندھ کر نکلیں۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
یاد رکھیے! پروردگار خود ایک غیرتی ذات ہے اور انھیں غیرتی اور باہمت لوگ پسند ہیں۔
جاتے جاتے آپ کا لہو گرمانے کی خاطر مشہور بھارتی فلم ’’گھاتک‘‘ کا ایک سین رقم کرتا جاؤں، جس میں فلم کے ہیرو ’’سنی دیول‘‘ کی اپنے کم ہمت بڑے بھائی کے ساتھ ایک نکتے پر تو تو مَیں مَیں ہوجاتی ہے۔ دراصل فلم کا ولن ’’ڈینی‘‘ شہر میں لوگوں سے زبردستی زمینیں ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے۔ سنی کا بڑا بھائی ہمت ہار کر سنی سے کہتا ہے کہ ہم زمین ’’کاتیا‘‘ (ولن) کے حوالے کردیتے ہیں اور شہر چھوڑ کر گاؤں جاتے ہیں جہاں ترکے میں ملنے والی زمین سے کام چلا لیں گے۔ سنی اپنے بڑے بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’کون سی زمین…… بُزدل کی کہیں کوئی زمین نہیں ہوتی!‘‘ بڑا بھائی سنی پر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرکے کہتا ہے: ’’بند کر تیرے یہ لیکچر، تو مجھے سکھا رہا ہے، اسی چوراہے کے بیچوں بیچ میں نے آتنک دیکھا ہے۔‘‘ سنی جواباً اُسے طنز کا نشتر چبھو کر کہتا ہے: ’’شکر ہے کہ کاتیا کی نظر زمین پر پڑی، آپ کی پتنی (بیوی) پر نہیں پڑی، ورنہ آپ اُس سے بھی دست بردار ہوجاتے؟‘‘ بڑا بھائی غصے میں سنی کو تھپڑ مار کر کہتا ہے: ’’یہ تو کیا بکواس کر رہا ہے، تجھے شرم نہیں آتی، وہ میری پتنی ہے، تمھاری بھابی ہے بھابی!‘‘ سنی بھی بھڑک کر ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہتا ہے: ’’اور زمین ماں ہے بھیا، ماں……! وہ زمین جس نے تجھے دو وقت کی روٹی دی، وہ زمین جس نے تجھے شادی کرنے اور گھر بسانے کی طاقت دی، وہ زمین جس نے تجھے عزت دی، آپ اُس زمین کو ایک غنڈے کے ڈر سے چھوڑ کر چلے جائیں گے! ‘‘
قارئینِ کرام! سوات کی زمین بھی ہماری ماں ہے۔ اِس نے ہمیں دو وقت کی روٹی دی ہے، شادی کرنے اور گھر بسانے کی طاقت دی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں عزت دی اور نام دیا ہے، کیا ہم اس زمین کو مٹھی بھر تخریب کاروں کے ڈر سے چھوڑ کر چلے جائیں گے!
آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں اور یہ شعر پلو باندھ لیں کہ
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا
یار زندہ صحبت باقی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔