برصغیر پاک و ہند پر جب انگریز حکم ران تھے، تو وہ اپنا تسلط قائم رکھنے اور اسے مستحکم بنانے کے لیے مختلف حربوں سے کام لیتے تھے۔ جہاں وہ طاقت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرسکتے، تو اپنی بے محابا عسکری قوت سے کام لیتے، جہاں انھیں محسوس ہوتا کہ بات چیت یا نرم ڈپلومیسی سے کام چل سکتا ہے، تو وہ عیاری کی حد تک نرمی اختیار کرلیتے، لیکن جہاں کہیں طاقت اور نرمی دونوں کام نہ آتی، تو وہ "Divide and Rule” کے ذریعے مخالفین کو کم زور کرنے کی کوشش کرتے، تاہم جب ان کے مقاصد کی تکمیل میں کوئی بڑی رکاوٹ پیدا ہوجاتی، تو وہ متعلقہ علاقے کی بااثر شخصیات کو خریدنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ وہ انسان کی فطری کم زوریوں اور ان کی نفسیات سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ اس لیے پیسے کے آگے بڑے بڑے بااُصول لوگ بھی سرِ تسلیم خم کرتے تھے۔
برطانیہ سے ہندوستان میں جو آفیسر بھیجے جاتے، وہ معاشرے کے منتخب، اعلا تعلیم یافتہ اور نہایت زیرک لوگ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصے تک وہ ہندوستان پر بلاشرکتِ غیرے کام یابی سے حکومت کرتے رہے اور نہ صرف خود متحدہ ہندوستان کے وسائل سے مستفید ہوتے رہے، بلکہ برصغیر کے طول و عرض میں اس دور کی مناسبت سے غیرمعمولی ترقیاتی کام بھی انجام دیتے رہے۔ وہ غاصب ضرور تھے اور اپنے سیاسی، اقتصادی اور مالی مفادات کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرتے تھے، لیکن اُن کے دور میں قانون کی حکم رانی موجود تھی جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ انگریز افسران کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ جس علاقے میں بھی تعینات کیے جاتے، وہ اس خطہ کی تاریخ، تہذیب اور روایات سے خصوصی آگاہی حاصل کرتے۔ نہ صرف وہاں کے لوگوں کی نفسیات، ان کی خامیوں اور خوبیوں کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے بلکہ اُن پر تحقیق کرکے انھیں خصوصی رپورٹس اور کتابی صورتوں میں ضبطِ تحریر میں بھی لاتے۔
برصغیر کی تاریخ، تہذیب و ثقافت، آثارِ قدیمہ اور لسانیات پر جتنا کام انگریز اور اس کے سرکاری ملازموں نے کیا، اتنا اور ایسا کام پھر کبھی نہیں ہوا…… بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ غیرمنقسم ہندوستان کے ماضی کی بازیافت سول سروس کے انگریز افسران کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال ملنی مشکل ہے۔ برصغیر کی شاید ہی کوئی زبان ہوگی جس کی لغات اور قواعد کی کتابیں ان لوگوں نے مرتب نہ کی ہوں اور شاید ہی کوئی خطہ یا قوم ہوگی جس کی تاریخ انھوں نے نہ لکھی ہو۔ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں تھی۔ یہ کام انگریز افسر خود اپنے ذوق و شوق سے انجام دیتے تھے۔
اس سلسلے میں جولائی سنہ 1800ء میں فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) انگریزوں کا قائم کیا گیا وہ تعلیمی ادارہ تھا، جس کا وجود اگرچہ چند سال قائم رہا مگر اس کے اثرات دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی باقی ہیں۔ اس ادارے کا قیام اگرچہ نوجوان انگریزوں کو ہندوستانی زبان و ادب اور مشرقی علوم و فنون سے روشناس کروانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، لیکن اس نے ہندوسانی زبان و ادب کا رُخ موڑ دیا۔ اسی ادارے کے تحت لسانیات پر بہت بڑا کام ہوا۔ انگریزی زبان سے بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے اور اس ادارے میں تحقیق و تدریس کے حوالے سے جو کام ہوا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس طرح پختون علاقوں میں جو انگریز آفیسرز تعینات تھے، انھوں نے پختونوں کی تاریخ، تہذیب و ثقافت، لسانیات اور ان کی بود و باش پر غیرمعمولی کام کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں یہاں دینا مناسب ہوگا۔
The Pathans (Sir Olaf Caroe):۔ پختونوں کی تاریخ پر ایک مستند کتاب سمجھی جاتی ہے جس کا ترجمہ پختو اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔
Gazetteer of the Hazara District 1883-8 4(Waston H. D):۔ ضلع ہزارہ کی تاریخ کے حوالے سے ایک قابلِ اعتماد رپورٹ ہے۔ غالباً اس کا بھی اُردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
Military Report and Gazetteer on Dir, Swat and Bajaur:۔ اس کے دو حصے ہیں اور اس گزیٹیئر سے اس وقت کے سیاسی، سماجی اور دفاعی حالات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
North-West Frontier Province- 190 8(H. A. Rose):۔ غالباً یہ شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختون خوا) کی تاریخ اور انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے پہلی کتاب ہے جس سے قیمتی معلومات کا حصول ممکن ہے۔
Grammar and Vocabulary of Waziri Pashto (J. G. Lorimer):۔ پشتو زبان کے گرامر اور لغات کے حوالے سے یہ اہم کام مصنف نے اس وقت کیا تھا، جب وہ 1898-99ء اور پھر 1902ء میں شمالی وزیرستان کے پولی ٹیکل آفیسر تھے ۔
The Story of the Malakand Field Force:۔ برطانیہ کے سابق وزیرِ اعظم سرونسٹن چرچل کی مشہور کتاب ہے۔ یہ ان رپورٹس پر مشتمل ہے جب وہ صحافی کی حیثیت سے برطانوی فوج کے ساتھ ہمارے خطے میں آئے تھے اور انگریز افواج کی سرگرمیوں کی خبریں اپنے اخبار کو بھیجتے تھے۔ اس کتاب میں ان واقعات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے جب انگریزوں نے ملاکنڈ اور بونیر کے علاقوں پر یورش کی تھی۔ اس کتاب کے مُندرجات سے کئی تاریخی واقعات کی شہادت ملتی ہے۔
متذکرہ کتابیں اور رپورٹس ان دستاویزات کی محض ایک جھلک ہے جو انگریزوں نے غیرمنقسم ہندوستان پر حکومت کرتے ہوئے اپنے افسروں کے ذریعے مرتب کی تھیں۔ مزید رپورٹس اور کتابوں کا تذکرہ غیر ضروری طوالت کا باعث ہوگا۔ اس لیے مَیں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔
زیرِ تبصرہ ترجمہ کیپٹن ٹی جے سی پلاؤڈن کی خفیہ رپورٹ ہے جو انھوں نے 1876ء میں لکھی تھی۔ یہ رپورٹ گورنمنٹ آف انڈیا پریس شملہ سے 1932ء میں "Leading Persons and State of Factions in Swat No. 63” کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کا ترجمہ شہباز محمد نے بڑی سادہ اور عام فہم اُردو میں کیا ہے۔ شہباز صاحب کو اپنے علاقے کی تاریخی جڑیں کھوجنے اور انھیں کتابی صورت میں سامنے لانے میں غیرمعمولی دل چسپی ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے اس سے قبل ’’ملاکنڈ فیلڈ فورس‘‘ کا ترجمہ بھی پشتو زبان میں کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یوسف زئیوں کے بارے میں ایچ ڈبلیو بیلیو کی کتاب "A General Report on the Yousafzais” کا اُردو ترجمہ بھی کیا ہے، جو اِس وقت زیرِ طبع ہے۔ انھوں نے ایک اور انگریزی کتاب کا ترجمہ ’’سوات 1858ء‘‘ کے عنوان سے کیا ہے جس سے سوات کی اس دور کی تاریخ کے کئی نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔
زیرِ تبصرہ خفیہ رپورٹ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں میاں گل عبدالغفور اخوند صاحبِ سوات (المعروف سیدو بابا) کے حوالے سے بہت اہم باتیں منکشف کی گئی ہیں۔ اس میں انھیں ایک مذہبی اور روحانی پیشوا سے زیادہ ایک ہوشیار اور سوات اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں پر گہری نظر رکھنے والی ایک سیاسی شخصیت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ انگریزوں کے خلاف جنگِ امبیلہ (بونیر) میں ان کے جہاد کا تجزیہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا ہے کہ سیدو بابا نہیں چاہتے تھے کہ انگریز سوات اور بونیر پر قابض ہوکر ان کی روحانی شخصیت اور سماجی اثر و رسوخ کے لیے خطرہ بن سکیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ اگر اُس وقت انگریزوں کے خلاف جہاد پر کمربستہ نہ ہوجاتے، تو اس طرح ان کی روحانی شخصیت ان کے مریدوں کی نظروں میں کم زور پڑ جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ بعد ازاں اخوند صاحبِ سوات نہ صرف خود انگریزوں کی مخالفت سے گریزکا رویہ اختیار کرتے رہے بلکہ اپنے زیرِ اثر لوگوں کو بھی انگریزوں کے خلاف حملوں سے باز رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ انگریزوں کے خلاف مستقل جہاد کی پالیسی پر کاربند رہیں، تو اس طرح وہ انگریزوں کو سوات پر حملہ کرنے پر اُکسائیں گے اور یوں سوات میں ان کے روحانی اور مذہبی اثر و نفوذ کا خاتمہ ہوجائے گا۔
یہ رپورٹ سوات اور موجودہ ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف علاقوں کے سیاسی، سماجی اور مذہبی پس منظر کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب سوات میں کوئی مرکزی حکومت قائم نہیں تھی۔ سید اکبر شاہ کی وفات کے ساتھ ہی اُن کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور اُن کے بیٹے سید مبارک شاہ کوشش کر رہے تھے کہ وہ اپنے باپ کی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لیں، لیکن سوات کے لوگ اس کے لیے راضی نہیں تھے۔ سیدو بابا کی خواہش تھی کہ اُن کے بڑے بیٹے میاں گل عبدالحنان کو سوات کا بادشاہ بنایا جائے، لیکن اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ کیوں کہ اُن میں اپنے والد کی طرح کسی قسم کی سیاسی، مذہبی اور تعلیمی قابلیت موجود نہیں تھی۔
یہ رپورٹ اس پورے علاقے کے خان خوانین اور باثر شخصیات کے حوالے سے گراں قدر معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس سے اس وقت کے خان خوانین کے جوڑ توڑ اور اقتدار پرستی کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ گروہ بندیاں، باہمی اختلافات اور دشمنیاں اُس دور میں عام تھیں اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہنا اس دور کی قبائلی روایات میں شامل تھا۔ مذہبی اثر و رسوخ اس وقت بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے فیصلے سیدو بابا کے مشورے سے کیے جاتے تھے۔ بہت سے خان خوانین سیدو بابا کے زیرِ اثر تھے اور وہ انھیں جو حکم دیتے، اس کی بجا آوری کی جاتی تھی۔
اس رپورٹ کے مترجم شہباز محمد کی یہ کاوش قابلِ قدر ہے۔ انھوں نے اِس کا اُردو میں ترجمہ کرکے سوات اور اِس کے قرب و جوار کے علاقوں کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والے طالب علموں اور عام قارئین کے لیے ان معلومات تک رسائی آسان بنا دی ہے۔
شہباز محمد کا تعلق تھانہ (ملاکنڈ ڈویژن) سے ہے۔ وہ ہائی اسکول میں استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ قدرت نے انھیں بہت سی خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انھیں بہ یک وقت اُردو، پشتو، انگریزی، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ انھوں نے تراجم کے علاوہ علاقے کے علم و ادب کے حوالے سے بھی کئی تحقیقی اور تخلیقی کام کیے ہیں جن میں نظم و نثر پر مشتمل دو درجن سے زائد کتابیں شامل ہیں۔ ادبی تحقیق ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے، لیکن فاضل مترجم ہمہ وقت اسی کام میں جتے رہتے ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن میں انھوں نے جتنا تخلیقی، تحقیقی اور تراجم کے حوالے سے جامع اور مستند کام کیا ہے، وہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔
مَیں اپنے ممدوح شہباز محمد کی علمی و ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ اسی جوش و جذبے سے اپنے علاقے میں علم و ادب کی تخلیق اور تاریخ و تہذیب کی تحقیق کے حوالے سے اپنی گراں قدر سرگرمیاں جاری رکھیں گے اور ہم جیسے طالب علم ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
یہ کتاب شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز سوات مارکیٹ، جی ٹی روڈ مینگورہ نے نہایت خوب صورت گِٹ اَپ کے ساتھ شائع کی ہے۔ اسے پشاور میں یونیورسٹی بک ایجنسی خیبربازار، اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ، لاہور میں المیزان پبلشرز اُردو بازار اور کراچی میں فضلی سنز بک سپر مارکیٹ اُردو بازار سے طلب کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔