ساقیؔ فاروقی، بڑا ادیب، بڑا شاعر اور عظیم انسان

کسے معلوم تھا کہ 21 دسمبر 1936ء کو گورکھپور کے ایک زمین دار گھرانے میں اپنے والدین کی شادی کے 8 برس بعد پیدا ہونے والا بچہ بڑا ہو کر اردو شعر و ادب کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی طرح جگمگائے گا۔
بچے کے دادا خیرات نبی صدیقی مجسٹریٹ نے نومولود کا نام قاضی محمد شمشاد نبی صدیقی رکھا اور اس کی پیدایش کی خوشی میں گاؤں کی عورتوں میں نئی ساڑھیاں تقسیم کیں۔
ابتدا میں اس بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے گھر پر اہتمام کیا گیا اور پھر اسے سیتاپور کے ایک سکول میں داخل کرا دیا گیا، جہاں اس نے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ لاڈ پیار اور نوکروں کی بہتات کی وجہ سے شمشاد نبی کے مزاج میں ایک ایسی خودسری بیدار ہوگئی جس نے اُسے تمام عمر اپنے حصار میں لیے رکھا۔
یہ بچہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اپنے خاندان کے ہم راہ پہلے مشرقی پاکستان اور پھر کراچی آگیا، جہاں اس نے شعر لکھنے کا آغاز کیا اور کراچی کے ادبی حلقے اس جوشیلے نوجوان کو ساقی فاروقی کے نام سے جاننے لگے۔
ساقی فاروقی نے گریجوایشن کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، لیکن پھر 1963ء میں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر لندن آگئے۔ برطانیہ کی آب و ہوا اور ماحول انھیں بہت راس آیا اور پھر انھوں نے پاکستان اور بھارت کے ادبی مراکز سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنی پہچان اور انفرادیت کا چراغ ایسے جلایا کہ اُردو کے ادبی حلقوں میں ان کا نام ایک حوالے کے طور پر لیا جانے لگا۔
ساقی فاروقی ایک شان دار ادیب اور پُروقار شاعر تھے۔انھوں نے بہت فعال اور بھرپور زندگی گزاری اور اپنے پیچھے نثری اور شعری ادب کا کثیر سرمایہ چھوڑ کر 19 جنوری 2018ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی ایک درجن کتابیں اور سوانح عمری آپ بیتی ’’پاپ بیتی‘‘ اُردو اَدب کے قارئین کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ بہت سے نقادوں کو ساقی فاروقی کے شعری موضوعات، طرزِ فکر اور ادبی معاملات سے کئی طرح کے اختلافات رہے، مگر اس کے باوجود وہ ساقی صاحب کی علمی فضیلت اور ادبی حیثیت کا اعتراف کرتے تھے اور کرتے ہیں۔
ساقی فاروقی اُردو کے ایسے منفرد ادیب اور شاعر تھے جنھوں نے مغرب میں رہ کر بلکہ مغربی طرزِ زندگی اپناکر اپنے خیالات، نظریات اور موضوعات کو اپنے اظہار کے قالب میں ڈھالا اور انھیں اپنی ادبی اور شعری ترجیحات کا حصہ بنایا۔ اسی لیے اُن کی تحریریں اُردو زبان و ادب کے قارئین کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرتی ہیں۔ اُن کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھا تھا کہ ساقی فاروقی اُردو کے سب سے بڑے جلالی شاعر ہیں۔ جدید مغربی شاعری اور ادبی رجحانات سے جو براہِ راست واقفیت انھیں ہے، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ وہ جس کسی کو دوست رکھتے ہیں، اُسے پھر کہیں کا نہیں رکھتے۔ وہ اپنے آپ سے جنگ کرتے رہتے ہیں اور کئی بار خود کو دندان شکن شکست دے چکے ہیں۔
ساقی فاروقی کہتے تھے کہ میرا موضوعِ سخن پوری کائنات ہے اور میرا نظریۂ تخلیق اُس انسان کی دریافت ہے جو ٹکڑوں میں بٹ کر زندہ ہے۔
ساقی فاروقی سے میری پہلی ملاقات 1994ء میں افتخار قیصر کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ پاکستان سے لندن آنے کے بعد میں جن 3 ادبی شخصیات سے ملنے کا خواہش مند تھا، اُن میں سے ایک کا نام ساقی فاروقی تھا۔ اُن کے دیگر کئی اشعار کے علاوہ یہ ایک شعر میرے حافظے میں تھا:
ناموں کا اِک ہجوم سہی میرے آس پاس
دِل سُن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے
پہلی ہی ملاقات میں ساقی صاحب کی شان دار شخصیت اور وضع داری نے مجھے اُن کا مداح بنا دیا۔ رفتہ رفتہ میں نے محسوس کیا کہ اُردو کے ادبی مراکز سے دور سات سمندر پار برطانوی جزیرے میں اُن کی حیثیت اُردو زبان و ادب کے ایک لائٹ ہاؤس کی ہے جو ہر باصلاحیت نئے لکھنے والے کی ہمیشہ رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 1996ء میں میرے ایک شاعر دوست کی شادی لندن میں ہوئی، تو ساقی صاحب نے اُسے تحفے میں کارڈ کے علاوہ ایک پیکٹ بھی دیا۔ جب دلہا نے وہ پیکٹ کھول کر دیکھا، تو اس میں ساقی صاحب کی نئی کتاب ’’ہدایت نامۂ شاعر‘‘ تھی۔ یہ کتاب واقعی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں فیض احمد فیضؔ اور ن م راشدؔ پر ساقی فاروقی کے مضامین بہت عمدہ ہیں، جن کو پڑھ کر اُردو ادب کی اِن دو بڑی شخصیات کے ادبی اور ذاتی رویوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
ساقی فاروقی صاحب کو لندن میں ان دونوں شخصیات کی قربت حاصل رہی۔ اس لیے فیضؔ اور راشدؔ کے قدردانوں کو ساقی فاروقی کی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِحکومت میں جب لندن میں اُردو مرکز بہت فعال تھا، تو برطانیہ میں اُردو کے ادیبوں اور شاعروں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ احمد فرازؔ بھی لندن میں جَلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ فیضؔ صاحب بھی لندن آتے جاتے رہتے تھے۔ ساقی فاروقی کی احمد فرازؔ سے معاصرانہ چشمک تھی۔ ایک بار فیضؔ صاحب نے ساقی فاروقی سے کہا کہ تم احمد فرازؔ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے جاؤ اور راستے میں کسی ٹرین اسٹیشن پر اُتار دینا جس پر ساقی کہنے لگے کہ فیضؔ صاحب جب کوئی برا شاعر میری اس کار میں بیٹھتا ہے، تو اس کے دو ٹائر ڈگمگانے لگتے ہیں۔ فیضؔ صاحب مسکراتے ہوئے گویاہوئے کہ ارے بھئی، کوئی بات نہیں اگر فراز تمھارے ساتھ جائے گا، تو تمھاری کار کے چاروں پہیے ڈگمگائیں گے۔
ساقی فاروقی احمد فراز کی رومانوی شاعری کے بہت زیادہ قائل نہیں تھے۔ ایک محفل میں انھوں نے برملا احمد فرازؔ سے کہا کہ تمھاری شاعری مرجائے گی جس پر احمد فرازؔ نے ترنت جواب دیا، ساقی صاحب! زندہ چیزیں ہی مرتی ہیں۔
ویسے تو دنیا بھر سے اُردو کے شاعر اور ادیب لندن آکر ساقی فاروقی سے ملنے کے خواہش مند رہتے تھے، لیکن جن لوگوں نے ساقی صاحب کے ساتھ بہت وقت گزارا اور اُن کے حلقۂ احباب میں شامل رہے، اُن میں ڈاکٹر جاوید شیخ، عدیل صدیقی، جتندر بلو، یشب تمنا، ارشد لطیف، شہباز خواجہ، سلیم فگار، الیاس ملک اور دیگر کئی دوست شامل ہیں۔
مَیں نے ساقی فاروقی کے کئی طویل انٹرویو کیے جو جنگ لندن کے علاوہ دیگر اخبارات میں شائع اور ٹی وی چینلوں پر نشر ہوئے۔
ساقی صاحب جس محبت اور خلوص سے ہمیں اپنے گھر مدعو کر کے ہماری میزبانی کرتے اور مطالعے کے لیے کتابیں عنایت کرتے، گھنٹوں شعر و ادب پر گفت گو ہوتی۔ خاص طور پر 21 دسمبر کو ساقی صاحب کی سال گرہ پر اُن کے تمام دوست اور نیاز مند اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ اب اس تاریخ کو ہم سب ساقی صاحب کو یاد اور اُن کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے، لیکن اُن کی یاد مسلسل آتی رہتی ہے اور اگر رخصت ہونے والا ساقی فاروقی جیسا کوئی قادر الکلام شاعر ہو، تو اس کے عمدہ اشعار اس کی یادوں کا حوالہ بن جاتے ہیں۔ اب موقع کی مناسبت سے ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میرے ہمراہ وہی تہمتِ آزادی ہے
میرا ہر عہد وہی عہدِ اسیری نکلا
مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں
ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے
سفر میں رکھ مجھے میری جدائیوں سے پرکھ
فراق دے ابھی خاکِ وصال میں نہ مِلا
یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہو جاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا
عمر بھر کانٹوں میں دامن کون الجھاتا پھرے
اپنے ویرانے میں آ بیٹھا ہوں دنیا دیکھ کر
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اِک دِن
خدا کرے کہ ستارے سے پھر ستارہ ملے
تجھے غرور، مجھے عاجزی دوبارہ ملے
زِنداں بھی نہیں لیکن ہم اہلِ محبت نے
جس سمت نظر ڈالی، دیوار نظر آئی
مٹی سے ہو ا منسوب مگر آتش خانہ سا جلتا ہوں
کئی سورج مجھ میں ڈوب گئے مرا سایہ کم کرنے کے لئے
یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات
تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے
لکھنا پڑھنا ساقی فاروقی کی زندگی کا مقصد، اور اچھا ادب تخلیق کرنا ان کی پہلی ترجیح اور مشن تھا۔ وہ ہر وقت تخلیقی کیفیت سے سرشار رہتے تھے۔ مَیں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ لندن میں مجھے ساقی صاحب کی قربت اور اپنائیت میسر رہی اور اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
ساقی صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے ہم عصروں کا ذکر بہت محبت سے کیا کرتے تھے۔ اُن میں سے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں اُنھوں نے اپنی آپ بیتی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔
ساقی فاروقی بڑے ادیب، بڑے شاعر اور بڑے انسان تھے…… جو سرکاری اعزازات کے حصول کی جستجو سے ہمیشہ دور رہے، اور اپنے فن اور شخصیت پر کتابیں لکھوانے کو کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔
معلوم نہیں ہمارے بعد کی نسلوں کو ایسے شان دار لوگ میسر آ سکیں گے یا نہیں……؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے