کوئی سو سوا سو گاوؤں اور قصبوں پر مشتمل ضلع استور، گلگت سے ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں بات کلومیٹر کی نہیں، سپیڈو میٹر کی ہوتی ہے، جو بیس سے تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے چیونٹی کی چال رینگتا ہے۔ کچی، تنگ اور خطرناک سڑک کے باعث استور پہنچنا چار گھنٹے کا کھیل ہے بابا! یہ علاقہ چھے سات مہینے یعنی نومبر سے مئی تک برف سے ڈھکا ہتا ہے۔ لوگ شینا زبان بولتے ہیں۔ استور ایک چھوٹا سا قصبہ سمجھ لیں یہ دیوسائی نیشنل پارک کا ایک طرح سے بیس کیمپ ہے جو سطح سمندر سے تیرہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلند ی پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ پارک تین ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ علاقائی زبان میں دیو سائی کا مطلب ہے دیو کی سرزمین۔ شاید یہ کسی خوش قسمت دیو صاحب اور اُس کی گل پری کی سلطنت رہا ہوگا ماضی گم گشتہ میں۔ کثیر تعداد اور رنگ برنگے پھولوں کی وجہ سے اس کو پھولوں کا وطن بھی کہتے ہیں۔ یہاں پر تیس فٹ تک برف پڑتی ہے۔ تھکے ماندے اور بھوکے بھبکے ’’شام گئے‘‘ استور پہنچے۔ دال چاول پکانے کا طریقہ وہاں کے ہوٹل والوں کو مفت میں سمجھایا اور قیام و طعام کے بدلے خاصی رقم بھی دی۔ بھوک کے دوران میں دال چاول کھانے کو ملا اور بہ افراط ملا، تو اس کے ذائقے کی تشریح کون کرے، کیسے کرے اور مفت میں کیوں کرے؟
صبح صبح پوری پارٹی نے دیوسائی نیشنل پارک جانا ہے۔ اونچی چوٹی، سڑک کی تنگ دامنی، شکستہ حالی اور کرائے کی کسی پرانے جیپ میں تین گھنٹے کا کٹھن سفر۔ ہم نے جانے سے یکسر انکار کرکے استور ہی میں رُکنے کا عندیہ دیا۔ افتخار اور شاہ جی نے ہر صورت ہمیں ساتھ لے جانے کی دھمکی دی۔ چاہے یہاں کے بیماروں کی طرح چارپائی کے ساتھ باندھ کر کیوں نہ لے جاناپڑے۔ والٹئیر نے دُعا مانگی تھی کہ’’اے اللہ، میں اپنے دُشمنوں سے خود کو بچالوں گا، بس مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ۔‘‘ یہ بات پڑھنے سے پہلے ہم نے والٹئیرکانام ضرور سنا تھا، لیکن انسان کی نسبت سے نہیں کتے کی ایک خاص نسل کے نسبت سے۔ اب علم ہوا کہ اس نام پر تو اتنا سیانا شخص بھی دنیا سے ہوتے ہوئے عاقبت کی طرف ہو گزرا ہے، جس نے اتنی بڑی بات کی تھی ۔
سفر کے دوران میں آدھی نماز تو خدا نے معاف کر دی ہے، بقیہ آدھی خود ساختہ بیماری کی آڑ میں ہم نے خود’’ منہا ‘‘کر دی ہے۔ لیکن تھکاوٹ کے باوجود راتوں رات’’ایکسکلوسیو‘‘ طور پر دو رکعت نمازِ نفل کی ادائیگی کی۔ دعاؤں کی’’خصوصی بلیٹن‘‘ میں والٹئیر والی دُعا مانگی اور خدا وند کریم سے شکوہ کیا کہ ایسے دوستوں کا فائدہ کیا، جو کسی کی جان کی بھی پروا دار نہیں۔ رات کو روم میٹ سردار زیب نے دردِ سر کا مداوا یوں کیا کہ اپنا نیا کلام سنانے کی بجائے آرام سے سونے دیا۔ صبح اُٹھے، تو اس ریموٹ علاقے میں پرائیویٹ سکولوں کے بچوں کی خوبصورت یونیفارم یعنی کوٹ پینٹ اور ٹائی دیکھ کر دل باغ باغ ہوا۔ بیشک پرائیوٹ سکول اور کچھ نہیں، تو بچوں کو ڈیسنٹ رکھنے میں تو کردار ادا کرتا ہے۔ استور کے گاؤں بونجھی کے رہنے والے’’ نوجوان‘‘ محمد صابر کی عمرصرف پچھتر سال ہے، اپنے ساتھی غلام رسول کے ساتھ ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ہماری بے جان محفل میں جان ڈالنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں۔ ٹھیکیداروں کے ایسوسی ایشن کے صدر مملکت بھی ہیں۔ سوری میری طرف سے فوری طور پر ’’مملکت‘‘ کا لفظ حذف تصور فرمائیں، غلطی سے قلم کے نوک پر آگیا۔ ’’عہدہ‘‘ کی بے حرمتی کا خطرہ ہے، جو آئینِ ریاست کے آرٹیکل پینسٹھ چھیاسٹھ کلاز۴، شق ج کے پری ویو میں مستوجب عمر قید ہے۔ خیر۔ یوں ترو تازہ رہے محمد صابر، اب بھی چاق و چوبندہے۔ چائے کا ’’سِپ‘‘ لیتے ہوئے کہتے ہیں، استور کا علاقہ تعلیم کے میدان میں بڑا ہرا بھرا ہے۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ یہاں پر یہ شرح نوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ بچیوں کے لئے علیحدہ سکول و کالج جہاں نہیں، تو کوئی بات نہیں۔ یہاں ’’کو ایجوکیشن‘‘ پر کوئی پابندی جو نہیں۔ بڑی بات ہے۔ استور کے ایک سپوت افواجِ پاکستان پشاور کے کور کمانڈر رہے ہیں اور اب جی ایچ کیو میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ حال ہی میں یہاں کے باسی کیپٹن عارف احمد نے سی ایس ایس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی ہے۔ پاک فوج کی تاریخ میں یہ پہلے آفیسر ہیں جنہوں نے ملک بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔
صابر کے مطابق یہاں کے لوگوں کی عمریں بھی بڑی طویل ہوتی ہیں۔ اُن کے’’جواں سال‘‘ سسر حال ہی میں ایک سو تیس سال کی عمر میں داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ صحتِ کاملہ سے ابھی تک مالا مال تھے۔ نماز پڑھنے کے لئے باقاعدہ مسجد جاتے، معمول کی خوراک سے بھی زیادہ خوراک کھاتے، بلڈ پرشر، شوگر یا کوئی ایسی بیماری اس کے پاس سے نہیں گزری، بس دل کیا اور جاں بحق ہوگئے۔ اُن کی اچانک رحلت پر، صابر کیاسارا گاؤں مغموم ہے۔ گیلی آنکھوں کو چادر سے سکھاتے ہوئے کہتے ہیں: پتا نہیں کیا گناہ سرزد ہوا تھا اُن سے کہ اچانک چلے گئے؟ یہ سوال علاقہ بھر میں اب بھی گردش کر رہاہے۔ یہ بھی کوئی عمر ہوتی ہے، اوپر جانے کی؟ اپنے جنت نظیر وطن کے بارے میں غلام رسول فرماتے ہیں: زندگی یہاں آسان بھی ہے، مشکل بھی۔ سب دل کی باتیں ہیں، دل خوش ہو اور پیٹ کے تندور کی آگ اپنے وقت پربجھتی رہی، تو ہر جگہ جنت ہی جنت ہے۔ صابر کی ایک خواہش ہے جو اُن کی بقیہ پچھتر سالہ( متوقع) زندگی میں پوری ہو جائے، تو وہ اطمینان سے دنیا سے کوچ کا سوچے۔ وہ یہ کہ موجودہ وقت میں استور سے اسلام آباد تک کا سفر سولہ سترہ گھنٹے کا ہے۔ استور سے شاونٹر کیل کشمیر تک آٹھ کلومیٹر کا ایک ٹنل بن جائے، تو یہاں سے وہاں تک کا فاصلہ آدھے سے بھی کم رہ جائے گا۔ بات تو ٹھیک ہے، لیکن صابر کو اسلام آباد جانے کی کیا پڑی ہے؟ وہاں تو انسانوں کی شکل میں زیادہ تر زندہ و تابندہ لاشیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ سادہ دل لوگ اِن لاشوں سے ڈر یں گے نہیں کیا؟ پتا نہیں اسلام آباد سے انہوں نے کیا لینا، جب کہ دینا کچھ بھی نہ ہو۔ اِن معصوموں کو کیا پتا کہ وہاں بات ہوتی ہے، تو باقاعدہ لین دین کی ہوتی ہے۔ بہت کچھ آپ دیں گے، تو تب کچھ نہ کچھ وہ دیں گے۔ اِنا اللہ و انا الیہ راجعون۔
یہاں کی اکثر آبادی واپڈا کی ایذارسانی سے محفوظ ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اجتماعی طور پر واپڈا کے ظلم کے آگے بند باندھ کر ’’اپنا گھر اپنی بجلی‘‘ کا پروگرام شروع کیا ہے، جس میں کئی ادارے ان کو سپورٹ دے رہے ہیں۔ یہاں لوگوں کی زندگی کے معیار کا انحصار مال مویشیوں پر ہے، بکرے دنبے، بیل، گائے، گدھے، گھوڑے، یاک، خچر۔ مویشیوں کا انحصار چراہگاہوں پر ہے، جو سردیوں میں برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ مجبوراً ان پر خوراک کی فراہمی کے لئے بسا اوقات ہجرت کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ صابر اور غلام، ہمارے علم میں مزید اضافہ کرتے چلے جا رہے تھے لیکن ایسے میں ’’دوست نما دشمنوں‘‘ نے ہوٹل کے ڈائنگ روم میں گھس کر اچانک ہم پر حملہ کیا، ہمیں زودوکوب کیا، ہمیں وہاں سے نکالا اور ہمیں جیپ میں ڈلوا کر دیوسائی کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ بہ ہوش وحواس ہوئے، تو نیچے گہرائی کی طرف دیکھنے کی بجائے ہم نے بر سرِراہ اُن دورو دیوار کو تاڑنا نصف بہتر سمجھا۔ جو گھریلو پردہ کے ساتھ ساتھ اشتہاری بازی اور پند و نصیحت کے دنیا کا مشہورِ زمانہ میڈیم تصور کیا جاتا ہے۔ خاص کر دور دراز کے علاقوں میں۔ آپ کو بھی کہیں جانا پڑے، تو دیواروں کا لکھا ضرور پڑھیں اور ثوابِ دارین حاصل کریں۔ مثلاً’’اے ایمان والو، تیار ہو جاؤ، جہاد کے لئے۔‘‘،’’ صحابہ کا جو غلام ہے وہ ہماراامام ہے۔‘‘ یہ ہدایت دینے والے اپنا نام مقام اور پتا دینا ضروری نہیں سمجھتے۔’’میرا گھر…… میرا سکول‘‘، ’’نیک سوچ نیک قیادت وزیر صالح احمد‘‘، ’’ یہ جگہ برائے فروخت نہیں، لین دین کرنے والا خود ہی ذمہ دار ہوگا۔‘‘
دیو سائی نیشنل پارک کے گیٹ پر اِنٹری کرتے ہوئے فی ٹورسٹ سو روپیہ ’’مفت‘‘ میں لیا جاتا ہے۔ جب کہ ہر گاڑی والے کو ایک ایک تھیلا ’’مفت‘‘ میں عنایت کیا جاتا ہے اور مفت میں نصیحت دی جاتی ہے کہ کھانے پینے کے بچے ہوئے ٹکڑے، شاپر اور پیکٹس وغیرہ اس تھیلے میں جمع کرکے واپسی کے وقت اس چیک پوسٹ پر حوالے کریں۔ اچھی بات ہے، جس کو جو بھی پڑھے تو پھیلائے۔ (جاری ہے)
……………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔