غیر پشتون علاقوں میں ویش نظام

رازول صاحب نے کوہستان میں ویش نظام کے بارے میں اپنی فیس بک وال پر کافی دلچسپ معلومات دی ہیں۔ اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ موجودہ رایج نظام جس کے لیے بنیادی لفظ ’’ویش‘‘ مستعمل ہے، پشتونوں سے مستعار لگتا ہے۔ ظاہر ہے جہاں زرعی زمینیں اور جنگلات موجود ہوں، وہاں تقسیم کا کوئی طریقہ تو ضرور پایا جائے گا، تاہم کوہستان میں جس ’’ویش نظام‘‘ کی رازول صاحب نے نشان دہی کی ہے، وہ شیخ ملی سے مستعار معلوم ہوتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
رازول صاحب نے لکھا ہے کہ یوسف زئی 16ویں صدی عیسوی میں سوات پر قابض ہوئے اوراس کے بعد شیخ ملی کا نظام لاگو ہوا، جب کہ انڈس کوہستان کے شِین قبیلوں نے یہ نظام 15ویں صدی عیسوی سے بھی پہلے لاگو کیا ہوا تھا؛ مگر اس کا حوالہ فریدڑک بارتھ یا کارل یٹمار جیسے لوگوں سے نہیں دیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس خطے میں پشتونوں کی آمد سے پہلے ویش کا یہی نظام تھا، جو اَب ہے۔
خوشحال خان خٹک غالباً 1676ء میں سوات آئے تھے اور انھوں نے یہاں شیخ ملی کی ویش والی کتاب دفتر سے اور اخونددرویزہ کی تعلیمات سے وابستگی دیکھ کر کہا تھا کہ
دوہ کاراہ دی پہ سوات کی کہ خفی دی کہ جلی
مخزن دہ دریوزہ دے یا دفتر د شیخ ملی
یعنی سوات میں لوگوں کو صرف دو چیزیں نظر آتی ہیں۔ ایک درویزہ کی کتاب مخزن اور دوسری چیز شیخ ملی کا دفتر۔
شیخ ملی کے ویش کی رو سے کسی کے پاس زمین مستقل نہیں رہتی تھی اور یہ گردش میں رہتی تھی۔ اس لیے اس کا مطلب گردشی تقسیم ہے۔ اگر فرض کرلیں کہ سوات میں ویش پہلے سے موجود تھا اور جس کے ذریعے لوگ کسی زمین کی مشترکہ طور پر دیکھ بھال کرتے، تو یقینا پشتونوں سے پہلے سوات کے داردی لوگ ان سے مشترک طور پر لڑتے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ کیوں کہ سوات میں خوشحال خان خٹک نے دیکھا کہ ویش کی وجہ سے یوسف زئیوں کے گھر اصطبل (غوجل) کی طرح تھے، جب کہ خٹک کہتے ہیں کہ کافروں کے محل ہیں اور ان کے اندر خوب صورت دوشیزائیں رہتی ہیں۔
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ:
https://lafzuna.com/history/s-29943/
شیخ ملی کے ویش کے دوران میں بھی سوات میں اس وقت کے داردی قبایل کے پاس ذاتی ملکیتی زمینیں تھیں۔ کیوں کہ ویش سسٹم میں کوئی بندہ مستقل گھر نہیں بناتا، یعنی اچھا گھر نہیں بناتا اور جب مقررہ مدت کے لیے اس زمین کو استعمال کرکے جانے لگتا تھا،تو وہاں کے سارے درخت وغیرہ بھی کاٹ کر لے جاتا۔ اس لیے تبتی سیاح جب سولہویں صدی میں سوات کی سیر کرتے ہیں، تو وہ یہاں باغات اور جنگلات کی تباہی کو ذکر کرتے ہیں، جب کہ ساتویں صدی میں تبتی زایرین سوات کو باغ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
تقسیم کا دوسرا طریقہ جس کا ذکر رازول صاحب کے مضمون میں نہیں، شاید کوہستان میں بھی نہ ہو۔ ایسا کالام اتروڑ اور دیر کوہستان میں بھی نہیں۔ یہ سسٹم صرف یہاں توروال اور وہ بھی اس کے مشرق کی طرف ہے۔ اس کو توروالی میں ’’دھیمی‘‘ کہا جاتا ہے، جس کا لغوی مطلب دھواں ہے۔ مغربی توروال میں شی ملی کے نظام پر مبنی تقسیم رایج ہے جس کو دؤتر (دفتر کی بگڑی صورت) کہا جاتا ہے۔ یہاں ’’شاتورے‘‘ کی روایت بھی موجود ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ جن کا جنگلات میں یا شاملات میں کوئی حصہ نہیں۔ یہ بھی خالص پشتون تصور ہے۔ کیوں کہ شیخ ملی کی کتاب میں جس بندے کے لیے کوئی زمین نہیں لکھی ہوتی، اس خانے کو ’’تش تورے‘‘ یعنی ’’بغیر لفظ کے‘‘ کہا جاتا ۔ جو بگڑ کر ہمارے ہاں ’’شاتورے‘‘ ہوا۔
شیخ ملی کے زمانے یہ تش تورے وہ لوگ ہوتے تھے، جو ایک مقررہ تعداد میں لوگوں کو کھانا نہیں دے سکتے تھے یا جنگ اور لڑائی کے لیے افراد مہیا نہیں کرسکتے۔ اندازہ ہے کہ ان میں کئی داردی اقوام بھی شامل تھیں، جن سے زمینیں چھین کر ان کو تش تورے/ شا تورے بنا دیا۔
ہندو معاشرے کی شادیاں:
https://lafzuna.com/history/s-29286/
میرے خیال میں ہماری داردی تقسیم کا اصل نظام یہ ’’دھیمی‘‘ والا تھا۔ کیوں کہ اس سے جڑا لفظ ’’دُوھم‘‘ ہے جس کا ایک مطلب قبیلہ بھی ہے…… یا ایسا خاندان جس کا گھر ہے اور وہاں سے دھواں نکلتا ہے…… یعنی وہاں کوئی لوگ رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اُس زمانے میں کئی لوگ گھروں میں نہیں رہتے ہوں، یا محض تیار خور قسم کے ہوں۔ ’’دھیمی سسٹم‘‘ میں جس گاؤں کے پاس جنگل ہے، اس کی رائلٹی اور اس کے شاملات، گھرانے کے حساب سے تقسیم کیے جاتے ہیں، مرد کے حساب سے نہیں۔ ہمارے ہاں یہ تقسیم مرد والا حساب نہیں جس کو رازول صاحب نے غالباً ’’باگو‘‘ لکھا ہے…… جب کہ دؤتر کا دوسرا نظام یعنی قبیلے کی بنیاد پر ہے، جہاں قبیلے میں مردوں کی تعداد یا گھرانوں کی تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ نظام ہمارے مغربی توروال میں رایج ہے جب کہ مشرقی توروال میں دھیمی کا نظام رایج ہے۔ پہلے دھیمی میں ایسا بھی تھا کہ جس کے پاس کوئی آبائی کھیت ہو، وہ دھیمی کا حق دار ہوتا۔ پھر تبدیل کرکے گھرانے کے حساب پر کرلیا گیا۔
ہم کھیت کو بُھوم کہتے ہیں اور چترال میں آبائی/ سودیشی کو بُومی کہتے ہیں۔ ہندی کا جنم بُھومی اس طرح لگتا ہے یعنی "Nativeness”۔ مجھے اندازہ نہیں کہ چترال میں کیا نظام ہے، تاہم اس پر تحقیق کرنے سے پتا چلے گا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ویش والی تقسیم ہماری اپنی نہیں۔ ہماری کوئی اور تقسیم تھی جس کا کھوج لگانا ہے۔ مجھے ہمارے ہاں دھیمی والا آبائی نظام لگتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے