کیا حالیہ عوامی بیداری کا راستہ روکنا ممکن ہے؟

گذشتہ ہفتے بات ہوئی تھی عوامی بیداری کی…… جس پر کچھ معزز قارئین نے پوچھا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیوں کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور فوج مضبوط ہے۔ اُن سے عرض ہے کہ دنیا تغیر و تبدل کا مرقع ہے۔ یہاں تبدیلی نے آنا ہی ہے۔ہر گزرتا لمحہ ماضی بن جاتا ہے۔ ماسوائے خدائے واحد کے، کوئی اور قوت ہے ہی نہیں جس کو وقت پر اختیار ہو…… جو وقت کو روک سکے اور تبدیلی کو واقع نہ ہونے دے۔ کیوں کہ ہر گزرتا لمحہ (وقت) بذاتِ خود ایک تبدیلی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ تبدیلی کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
اکرام اللہ عارف کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ikram-ullah-arif/
عموماً دو تناظر ہیں ایک ’’مثبت‘‘، دوسرا ’’منفی‘‘۔ اس کے بعد اقرار یا انکار کا مرحلہ آتا ہے۔ یہاں بھی صرف دو ہی راستے ہیں۔ اقرار کا راستہ جس پر آپ مثبت یا منفی تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں…… اور منزل وہی پاتے ہیں جو اس راستے کے آخر پر موجود ہوتی ہے۔ یا پھر انکار کے راستے پر لگا دروازہ بند کرکے ہر قسم کی تبدیلی کو اپنانے سے انکار کرتے ہیں، لیکن یہاں بھی انجام آپ کا وہی ہوتا ہے، جو ایک آگ لگے گھر کے اندر موجود شخص کا ہوتا ہے۔ آگ کی تپش بالآخر پہنچ جاتی ہے اور احتیاطی تدابیر سے انکاری جھلس کر راکھ ہوجاتا ہے۔
قارئین! آج کی دنیا مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر پڑوس اور قرب وجوار سے شروع کریں، تو ہم انقلابِ ایران کی بات نہیں کریں گے کہ کیسے بادشاہت کو شکست ہوئی؟ کیوں کہ وہ دور کی بات ہے۔ البتہ آج ایک بار پھر ایران میں زن، زندگی اور آزادی کا نعرہ لے کر عوام نکلے ہوئے ہیں۔ اب نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ ذرا وقت طلب معاملہ ہے۔
سوات اولسی پاسون اور عوامی مزاحمت غیر متوقع اور انہونی نہیں:
https://lafzuna.com/current-affairs/s-29749/
البتہ یہ تو کل پرسوں کی بات ہے کہ ’’عرب اسپرنگ‘‘ یا عرب بہار کے نام سے عرب ممالک میں عوامی بیداری کی لہر اُٹھی تھی…… اور تیونس، سوڈان، مصر، شام اور لبنان سمیت کتنے ممالک تھے، جہاں عوامی بیداری کو مثبت انداز میں قبول کرنے سے انکار کیا گیا۔ پھر کیا ہوا…… کتنوں کی بادشاہتیں ختم ہوئیں…… کتنا خون بہا……! اور آخرِکار تخت، ’’تختے‘‘ بن گئے۔ انھی عرب ممالک میں ایک سخت گیر بادشاہت کے سائے میں سعودی عرب بھی ہے…… وہاں بھی عوامی بیداری کی چنگاری بھڑکنے کو تھی، مگر شہنشاہانِ سعودیہ نے بہت چالاکی سے عوامی بیداری کو مثبت انداز میں کنٹرول کیا۔ عوامی حقوق اور آزادی کو کسی حد تک قبول کیا۔ خواتین کو آزادی دی گئی۔ ڈھیر سارے قوانین تبدیل کیے گئے۔ محرم کے بغیر خاتون کو عمرہ کی اجازت اور خواتین کو پولیس سمیت دیگر محکمہ جات میں نوکریوں کی اجازت دے کر عوامی بیداری کو ریاست و بادشاہت کے حق میں استعمال کیا گیا۔ عرب اسپرنگ کے یہ نتایج پاکستان کے لیے چشم کشا ہیں۔
پاکستان جو 22 کروڑ نفوس پر مشتمل ایک ایٹمی قوت ہے۔ قدرتی وسایل سے مالا مال ہے…… لیکن بالغ نظر سیاسی نظام و قیادت سے عاری ہے۔ مخصوص جغرافیائی حالات کی بدولت عسکری ادارے بہت طاقت ور اور وطنی تاریخ کے نصف عرصے تک براہِ راست حکم ران رہے ہیں۔ اس کثیر اللسانی و ثقافتی ملک میں آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، وہی نوجوان جو ’’زی جنریشن‘‘ کہلاتے ہیں (سادہ الفاظ میں ’زی جنریشن‘، ’جنریشن زی‘ یا ’نئی نسل‘ میں وہ نوجوان آتے ہیں جو نوے کی دہائی کے وسط یعنی 1995ء سے لے کر 2000ء کی دہائی کے آخر یعنی سنہ 2010ء تک پیدا ہوئے ہیں، بحوالہ بی بی بی سی اُردو سروس) یہ نسل ’’فلسفۂ عقلانی‘‘ سے متاثر اور سوشل میڈیائی اوزار سے مسلح ہے۔ شان دار ماضی پر فخر، جذباتی حب الوطنی کے نعروں اور مذہبی افیون کے اثر سے کافی حد تک آزاد یہ نئی نسل اب وہ مزاحمی قوت بن چکی ہے، جس کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاستی دباؤ بھی غیر موثر ہوچکا ہے…… اور مذہبی جادو بھی بے اثر ہے۔
سوات میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور عمومی نفسیاتی مسایل:
https://lafzuna.com/blog/s-29773/
حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک بلوچستان اور خیبر پختوں خوا، دہشت گردی اور ریاستی جبر کے ستائے ہوئے صوبوں میں عوامی مزاحمت کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی…… جس میں گاہے بگاہے تشدد پسندی بھی غالب ہوتی رہی…… مگر حالیہ دِنوں میں مذکورہ دو صوبوں کے ساتھ ساتھ پنجاب اور کسی حد تک سندھ میں بھی جو عوامی بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے، یہ عوامی سطح پر تو حوصلہ افزا ہے کہ کم از کم عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہے…… مگر روایتی، تبدیلی بے زار اور انگریز کے باقیات ’’مقتدرہ‘‘ کو شاید یہ پُرامن عوامی، بیداری، ذہنی ارتقا اور سماجی ترقی منظور نہیں۔ اس لیے مختلف حربوں سے اس پُرامن عوامی بیداری کو کچلا جا رہا ہے۔ کوئی ان صاحبانِ مسند و منصب کو سمجھائے کہ تبدیلی نے تو آنا ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ انھیں سعودی عرب کی طرح ویلکم کرکے خود کو بچاتے ہیں یا مصر اور شام کی طرح ’’ری جیکٹ‘‘ (Reject) کرکے کشت و خون کا بازار گرم کرتے ہیں۔
سوات کا مقدمہ:
https://lafzuna.com/blog/s-29645/
پاکستان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہی اس تبدیلی کی محرک ہے۔ اس لیے اس کو روکنا اب آسان کام نہیں۔
ہماری دعا فقط یہی ہے کہ اس عوامی بیداری کا نتیجہ ملک وقوم کے لیے مُثبت اور باعثِ خیر ہو، آمین!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے