نئی بوتل پرانی شراب

ہر نئی آنے والی حکومت سے عوام نے اپنے مسائل کے حل کی آس لگائی ہوتی ہے، لیکن نئی حکومت آتے ہی عوام پر مہنگائی کا پہاڑ ڈھا دیتی ہے۔ حکومت اپنی جان چھڑانے کیلئے سارا گند پچھلی حکومت پر ڈال دیتی ہے، اب تو یہ وطنِ عزیز میں ایک روایت سی بن چکی ہے۔ کشکول توڑنے کا دعویٰ کرنے والوں نے کشکول توڑنے کے بجائے مہنگائی اور قرضوں سے عوام کی کمر توڑ دی۔ کرپشن کیس میں فردِ جرم کے مرتکب دنیا کے اکلوتے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار صاحب کے مطابق پاکستان دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔ ہماری جی ڈی پی کا گروتھ لیول بڑھ گیا ہے اور برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ پچھلی حکومت کے مقابلے میں ہمارے دورِ حکومت میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں کمی آئی ہے۔ مختصر یہ کہ اسحاق ڈار صاحب کے مطابق سب ٹھیک کچھ ہے۔ سب ٹھیک ہے کا راگ الاپنے والے اسحاق ڈار سے کوئی یہ تو پوچھے کہ ’’جناب! سب کیسے ٹھیک ہے؟‘‘ ہمیں یہ پوچھنے کا حق پوری آزادی کے ساتھ حاصل ہے۔

آج پاکستان میں تقریباً ترپن لاکھ نوجوان بے روزگاری کا شکار ہیں۔ چالیس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ہمارے معیارِ زندگی کے اعداد و شمار کے مطابق ہم ایک سو سینتالیس کے ہندسے پر براجمان ہیں۔ برآمدات میں ہم دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں ایک سو پچپن نمبر پر ہیں۔ آج ہر پاکستانی ایک لاکھ پندرہ ہزار کا مقروض ہے جبکہ آبادی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے پاکستان دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک بن گیا ہے۔ اس وقت آبادی میں اضافے کا تناسب دو اعشاریہ چار ہے۔ یہ تناسب جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ اگر ہماری آبادی اس تناسب سے بڑھتی رہی، تو دو ہزار تیس تک دنیا میں ہمارے ملک کا شمار چوتھے گنجان آباد ملک کے طور پر کیا جائے گا۔ یہ اکیسویں صدی ہے جناب، اس وقت پوری دنیا میں معاشی جنگ جاری ہے۔ لیکن اس معاشی جنگ میں ہم دنیا کے کونسے کونے میں کھڑے ہیں؟ یہ پوچھنا لازم ہے ۔ آگر اج حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے، تو حقائق بڑے تلخ معلوم ہوں گے۔ چار سال سے اسٹیل مل بند پڑا ہے۔ پاکستان ائیر لائن اور ریلوے کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مالی سال دو ہزار سترہ کے دوران میں قرضوں اور مالی خساروں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ آج سر کولر ڈیٹ چار سو اسّی ارب تک پہنچ گیا ہے۔

آبادی پر قابو نہ پانے کی وجہ سے پاکستان دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک بن گیا ہے۔ اس وقت آبادی میں اضافے کا تناسب دو اعشاریہ چار ہے۔ یہ تناسب جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ بتایا جا رہا ہے۔ اگر ہماری آبادی اس تناسب سے بڑھتی رہی، تو دو ہزار تیس تک دنیا میں ہمارے ملک کا شمار چوتھے گنجان آباد ملک کے طور پر کیا جائے گا۔

ماہرینِ معاشیات کے مطابق تجارت میں پینتیس ارب ڈالر کا خسارہ ہوا ہے، جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ ہے۔ دوسری طرف ہماری در آمدات پچپن ارب ڈالر تک پہنچ کر ستّر سالہ ریکارڈ توڑ چکی ہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی باعثِ تشویش ہے۔ ان ساڑھے چار سالوں میں اندورنی اور بیرونی قرضہ جات پچپن ارب ڈالر سے بڑھ کر پچاسی اَرب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ سب سے زیادہ غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ قائم کرنے والے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، جن کے ایک دن کے دورے پر ستائیس لاکھ روپے خرچ ہوا کرتے تھے، وہ کتنے غیر ملکی صنعت کاروں اور تجارت کاروں کو ملک میں سرمایا کاری پر راضی کراچکے ہیں؟ موجودہ حکومت سے زیادہ مشرف اور زرداری کے دورِحکومت میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رُخ کیا۔ آج تو حالات یکسر تبدیل ہیں۔ آج سابق وزیراعظم نواز شریف پر کرپشن میں ملوث ہونے کے سبب فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔ اوپر سے ان کی کابینہ پر کرپشن کے نت نئے الزامات اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کے اپنے سرمایہ کار دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اگر سب سے مہنگا ترین قرضہ کسی حکومت نے لیا ہے، تو وہ ہے موجودہ حکومت جس نے پچاس بلین ڈالر سود کے عوض پینتیس بلین ڈالر کا قرضہ لیا ہے۔ دل دہلانے والی بات یہ ہے کہ جو قرضہ جات لئے گئے، انہیں ملکی صنعت و زراعت اور دیگر اِداروں پر لگانے کے بجائے حکومتی کارندوں کی عیاشیوں اور آسائشوں پر لگایا گیا۔ اسی سود کا ٹیکس غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دیا جا رہا ہے۔ کرپشن کے کئی کیسز سے مفلوج وزیرِخزانہ اسحاق ڈار صاحب نے جس جی ڈی پی گروتھ کے اعدادو شمار کا ذکر کیا ہے،وہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن یہ ٹھوس معیشت پر مبنی نہیں بلکہ انہی قرضہ جات کو خرچ کرکے بنائی گئی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اگر سب سے مہنگا ترین قرضہ کسی حکومت نے لیا ہے، تو وہ ہے موجودہ حکومت جس نے پچاس بلین ڈالر سود کے عوض پینتیس بلین ڈالر کا قرضہ لیا ہے۔

دوسری طرف دورِ حاضر کی اس معاشی جنگ میں بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔ غذائی قلت کے شکار پانچ کروڑ عوام پر مِنی بجٹ کے ذریعے روزمرہ استعمال ہونے والی سات سو ستّر درآمد ی اشیا پر ڈیوٹی لگا کر مزید مہنگائی کا بم گرانے کی تیاری جاری ہے۔ اگر وزیر ِخزانہ اپنے ذاتی کرپشن کیسز سے توجہ ہٹاکر ملک میں بدحا لی کے شکار اِداروں اور برآمدات کے بڑھانے پر اصلاحی اقدامات کریں، تو ممکن ہے کہ پھر’’ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘‘ اور آنے والے وقت میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔