آج ہم نے ایک بار پھر سیاست و معاشرتی مسایل سے ہٹ کر نسبتاً ہلکے اور رنگین موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستانی سینما کی تاریخ میں ایک فلم 1978ء میں ریلیز ہوئی تھی کہ جس کا نام ’’مولا جٹ‘‘ تھا۔یہ فلم بنیادی طور پر احمد ندیم قاسمی کے ناول پر بننے والی فلم تھی، جو حسن عسکری نے بنائی تھی۔ وحشی جٹ کے نام سے اسی کا سیکوئل یا پھیلاؤ کَہ لیں، تھا۔ وحشی جٹ بھی بے شک اُس دور میں بہت کامیاب فلم تھی، لیکن مولا جٹ نے تو بڑا ریکارڈ بنا دیا۔ لاہور کے شاید شبستان سینما میں اس کی نمایش سالوں جاری رہی۔ میرا خیال ہے کہ یہ واحد پاکستانی فلم تھی کہ جس کے ڈائیلاگز کو سیاست کے ایوانوں، عدلیہ کی کچہریوں اور پریس کانفرنسوں میں بے شمار بار کورٹ کیا گیا۔ انڈیا میں اول ’’جینے نہیں دوں گا‘‘ نام سے ہندی اور بعد میں ’’جٹ دا پتر‘‘ نام سے پنجابی میں بنائی گئی۔ مولا جٹ کے بعد انھیں کرداروں کے ساتھ ’’جٹ ان لندن‘‘، ’’جٹ دا ویر‘‘ وغیرہ وغیرہ نام سے مزید کئی فلمیں بنیں، لیکن ’’مولا جٹ‘‘ اپنی اصل میں سب سے اول ہی رہی۔
قارئین! مجھے ذاتی طور پر فلم بینی کا کبھی کوئی خاص شوق نہ رہا۔ کبھی زمانۂ طالب علمی میں ہالی وڈ کی جیمزبانڈ سیرز کی فلمیں دیکھتے تھے یا پھر کبھی کبھار اُردو فلم دوستوں کے ساتھ دیکھ آتے۔ ’’مولا جٹ‘‘ جب پنڈی میں ریلیز ہوئی، تو مَیں نے نہیں دیکھی۔ البتہ اُس وقت فلموں کے ریڈیو پروگرام چلتے تھے۔ ریڈیو پر مولا جٹ کے حوالے سے مصطفی قریشی کے ڈائیلاگ نشر کیے جاتے تھے، جو کافی اچھوتے محسوس ہوتے۔ پھر یہ فلم اُتر گئی اور دوبارہ کچھ عرصہ بعد ریلیز ہوئی۔ ہم نے تب بھی نہ دیکھی۔ مجھے اس کا نام ہی عجیب سا لگتا تھا۔ پھر یہ سنہ 88ء میں قریب دس سال بعد تیسری بار ریلیز کی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ تب مجھے ایک دوست سلمیٰ آغا کی پہلی پاکستانی فلم دکھانے لے گیا تھا ’’ہم اور تم‘‘ کے نام سے، لیکن بدقسمتی سے ہمیں سپیشل شو کے ٹکٹ نہ ملے۔ ہم واپس آرہے تھے کہ مری روڈ پر سامنے ایک سینما میں مولا جٹ لگی ہوئی تھی۔ میرے دوست نے مجھے کہا کہ چل یہی دیکھ لیتے ہیں…… لیکن مَیں نہ مانا کہ یار! کیا فلم ہوگی جب نام ہی ’’مولا جٹ‘‘ ہو۔ کچھ دیر تک میرا دوست مجھے قایل کرتا رہا۔ جب مَیں نہ مانا، تو وہ مجھے یہ کَہ کر کہ مَیں دیکھنے جا رہا ہوں، مجھے چھوڑ کر چلا گیا…… اور اتفاق سے وہی مجھے ایک شناسا مل گیا۔ مَیں اُس سے حال چال پوچھ رہا تھا کہ میرادوست مایوس واپس آیا اور گلہ کرنا شروع کر دیا کہ میری وجہ سے وہ لیٹ ہوگیا اور ہاؤس فل ہوگیا۔ مجھے حیرت محسوس ہوئی کہ یہ فلم تیسری بار ریلیز ہوئی اور اب بھی اتنی مقبول ہے! سو مَیں نے دوست کو کہا کہ آج گھر نہیں جاتے…… بلکہ شام کا شو دیکھیں گے۔ اور پھر اُسی دن مَیں نے شام کے شو میں مولا جٹ دیکھی۔ آپ یقین کریں کہ اس کے بعد مَیں یہ فلم سات بار دیکھ چکا ہوں اور اب بھی اگر کہیں یہ فلم لگی ہو، تو شوق سے دیکھنے جاؤں گا۔ یہ فلم کہانی، اداکاری، ہدایت کاری، بیک گراؤنڈ میوزک کے علاوہ اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ اس میں پہلی بار ولن کا ایک مضبوط کردار تخلیق کیا گیا تھا۔ ولن بھی دو: ایک نوری نت اور ایک اس کی بہن دارو نتنی۔ یہ بہت ہی پاور فل کردار تھے۔ خاص کر نوری نت کا جو کردار مصطفی قریشی نے ادا کیا، اس نے تو ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کمال کر دیا۔ المختصر، مولا جٹ ایور گرین فلم ہے اور سنا ہے کہ اس کے پروڈیسر سرور بھٹی نے اس کو پھر ریلیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے اس اصل مولا جٹ کے اکثر حصہ دار اب اس دنیا میں نہیں۔ ما سوائے مصنف ناصر ادیب، فلم ساز سرور بھٹی اور مرکزی ولن مصطفی قریشی کے۔ باقی سب دنیا سے جاچکے ہیں۔ اس کا ہیرو سلطان راہی، ہیروئین آسیہ، فی میل ولن چکوری، مددگار ولن ادیب، مزاحیہ کردار البیلا اور رنگیلا، الیاس کاشمیری، کیفی حتی کہ جیلر کا کردار ادا کرنے والا اداکار بھی فوت ہوگیا ہے۔
اب انھیں کرداروں کے ساتھ ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ بنائی گئی ہے۔ اس نئی مولا جٹ کا اگر موازنہ پرانی مولا جٹ سے کیا جائے، تو یہ بالکل غلط ہوگا۔ ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ ہر لحاظ سے ایک کم تر فلم ہے۔ مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ بلال لاشاری کو اول تو اداکاروں کا چناو سوچ کر کرنا چاہیے تھا۔ کہاں خوبرو آسیہ اور کہاں اُردو سپیکنگ ماڈرن مائرہ خان۔ میری ذاتی رائے اگر پوچھی جائے، تو نئی فلم میں مکھو جٹی کے کردار کو صفر نمبر دیا جانا چاہیے۔
اسی طرح ماکھا نت کا کردار بھی بہت ہی غلط اداکار سے کروایا گیا۔ مزید مودے کا کردار بھی کیفی کی طرح بالکل نہ ہوا۔ البتہ مولا جٹ کو پچاس، نوری نت کو چالیس اور دارو نتنی کو نوے نمبر دیے جا سکتے ہیں۔ دارو نتنی کا واحد کردار تھا کہ جسے جس لڑکی نے ادا کیا، وہ بہرحال چکوری کی قایم مقام بن گئی۔
دوسرا اس کی کہانی بہت عجیب ہے۔اس کا سکوئیل اگر یوں بنایا جاتا کہ مصطفی قریشی کو ایک مختصر طور پر کردار کیا جاتا اور اس سے سوال کیا جاتا کہ کسی بھی پوتے یا نواسے سے کہ ہماری دشمنی جٹوں سے کیوں تھی اور پھر تمام فلم خیالوں میں پکچرائز کی جاتی، کچھ اور تبدیلیوں کے ساتھ۔
اس طرح مولا جٹ کا کردار شان کو دیا جاتا جب کہ نوری نت کا شفقت چیمہ کو۔ آسیہ کی جگہ مکھو جٹی کا کردار ہر صورت کسی ایسی خاتون کو دیا جاتا کہ جو انداز و شکل سے ٹھیٹھ پنجابی جٹی محسوس ہوتی…… اور اس واسطے ٹی وی، سٹیج اور فلم میں بے شمار لڑکیاں مل سکتی تھیں۔ اب بلال لاشاری کو یہ سمجھ نہیں کہ جن لوگوں نے پرانی مولا جٹ یا اس سیرز کی اکثر فلمیں دیکھی ہیں، وہ ہمیشہ مکھو جٹی کا کردار آسیہ کو تصور میں لے کر دیکھتے ہیں۔
سب سے عجیب کردار ماکھا نت کا تھا۔ آپ یقین کریں یہ اداکار جس کو مَیں نہیں جانتا، لیکن یہ مکمل مزاحیہ کردار لگتا تھا۔ وہ کسی صورت ولن نہیں لگتا تھا۔ بہرحال چوں کہ آج کل میڈیا کا دور ہے اور جیو کی شکل میں ایک طاقت ور ادارہ اس کا اشتہاری پارٹنر ہے۔ سو یقینا جیو کے زور پر اس فلم کی کمائی زیادہ سے ذیادہ ہو رہی ہے۔
ویسے سچ بات یہ ہے کہ اس فلم سے میرے ذاتی خیال میں آپ اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن اس کا پلاٹ انتہائی کم زور، ڈائیلاگ بے شک چوری شدہ تھے، لیکن بات بن نہ سکی۔ ڈائریکشن بہت کم زور تھی۔ اداکاری بارے اوپر لکھا جا چکا اور بے ہنگم قسم کا بیک گراؤنڈ میوزک تو عام شخص کو محض غصہ چڑھا سکتا ہے۔ اس ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کے مذاق کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’مولے کی واپسی‘‘ کے نام سے ایک اور فلم بنائی جائے اور کہانی پلاٹ سے پہلے یونس ملک اور اصل مولا جٹ کے کرداروں کا بغور جایزہ لے کر کام شروع کیا جائے۔ وگرنہ دوسری صورت میں ایک پنجابی مثال کے مطابق ’’برا رونے سے چپ بہتر ہوتی ہے۔‘‘
اب معلوم نہیں یہ کام کوئی اور کرنے کی کوشش یا صلاحیت رکھتا بھی ہے یا نہیں…… لیکن کرے وہی جو پنجاب کے گنڈاسا کلچر اور پرانی مولا جٹ کو سمجھتا ہو۔ ویسے ہمارا مشورہ ہے کہ یہ کام مرحوم سلطان راہی کا بیٹا حیدر سلطان ضرور کرے، لیکن بطورِ فلم ساز اس میں اداکار و ہدایت کار یقینا کوئی اور ہو، تو پھر شاید فلموں کے شائقین کو اصل مولا جٹ یاد آ جائے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔