جس طرح دم اور قدم دونوں کا حساب ہے۔ اسی طرح سیاست میں بھی ہر دم اور قدم کا حساب ہوتا ہے۔ بہ شرط یہ کہ کوئی نوسربازی کو سیاست کا نام نہ دے۔ یہ تو بس ایک عمران نیازی ہے کہ کوئی حساب کتاب نہیں مانتا۔
طالع مند خان کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے: 
https://lafzuna.com/author/taliman/
یہ حقیقت ہے کہ باقی ماندہ دنیا میں عموماً اور ہمارے ہاں خصوصاً ریاستی طاقت، اقتدار یا اس میں حصہ حاصل کرنے کو ’’سیاست‘‘ کہتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سیاست کی جاتی ہے، لیکن پھر بھی اس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ دایرے میں رہ کر کھیلنا ہوتا ہے۔ اس لیے کھیل کی بقا، اسے بامقصد بنانے اور انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ حدود و قیود کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نیازی نے اس کھیل کو دھینگا مشتی، ہلڑبازی اور دشنام طرازی میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ وہ ریفری کے ذریعے باقی کھلاڑیوں کو میدان سے باہر نکال کر اکیلا کھیلنے پر بضد ہیں۔ کیوں کہ خود اُس کو اِس کھیل کی باریکی، اَسرار و رموز اور آداب کا پتا نہیں اور باقی جو کھلاڑی ان اوصاف کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ ان کے نزدیک بزدلی اور نا اہلی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے سیاست دان اس کھیل میں رگڑے کھا کر، اس کے سرد و گرم سے آگاہ ہوکر منجھے ہوئے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ وہ سانپ کو بھی مارتے ہیں اور لاٹھی کو بھی ٹوٹنے نہیں دیتے، لیکن عمران نیازی تو رتھ پر سوار ہوکر سیاست و اقتدار میں آیا اور اب رتھ سے اُترنا نہیں چاہتا۔
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ:
https://lafzuna.com/history/s-29943/
پتا نہیں عمران نیازی کا تذکرہ کرکے میرا ذہن اُس کو صوفی محمد اور فضل اللہ کے ساتھ کیوں ایک صف میں کھڑا کرتا ہے؟ شاید اس لیے کہ صوفی محمد بھی جماعت اسلامی چھوڑنے کے بعد اچانک اپنے دیر میدان کے مدرسے اور سیاست کی بھول بھلیوں سے نکل کر 1992ء میں تنظیمِ نفاذِ شریعتِ محمدی کی بنیاد رکھ بیٹھا اور دن دگنی، رات چوگنی ترقی فرما کر ملاکنڈ ڈویژن کی سیاست پر چھا گیا۔ وہ جمہوریت کو کفر اور اپنی تنظیم کے علاوہ باقی روایتی سیاسی جماعتوں کو غیر شرعی اور کفر کے آلۂ کار قرار فرماتا تھا۔ جہاں تک اس کی مقبولیت کا راز ہے، تو وہ اب راز نہیں رہا۔ مَیں نے صوفی کے حوالے سے دوسروں سے کچھ باتیں سنیں۔ 2009ء میں جب سوات میں فوجی آپریشن شروع تھا، ایک مشترکہ دوست کی جگہ پر ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ مذکورہ بندہ اُس وقت سوات کی انتظامیہ میں اہم افسر تھا۔ اُس نے کہا کہ جب صوفی محمد مینگورہ کے گراسی گراؤنڈ میں اپنے پہلے جلسے کی خاطر مجھے درخواست دینے کے لیے دفتر آیا، تو مَیں نے اُس سے کہا کہ مولانا گراسی گراؤنڈ تو وسیع ہے اور آپ کی تنظیم نئی نئی ہے، اس کو کیسے بھروگے؟ اس لیے اچھا ہوگا کہ اپنا جلسہ کسی چوک میں کرو۔ مولانا جواباً مسکراکر کہنے لگا: ’’آپ فکر نہ کریں۔‘‘ اس نے کہا کہ میری حیرانی اُس وقت ختم ہوئی جب کچھ دن بعد مجھے فون آیا اور یہ حکم صادر ہوا کہ آپ مولانا کے جلسے اور گراؤنڈ بھرنے کے لیے لوگوں اور ٹرانسپورٹ کا بندوبست کریں۔ اُس زمانے میں سوات سے ایک مقامی اخبار کا اجرا ہوا جو صوفی محمد کی پبلسٹی میں جُت گیا۔ دیکھا دیکھی ملاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد کا توتی اخبار اور اخبار کا صوفی محمد کی وجہ سے بولنے لگا۔
پیر بابا اور بونیر: 
https://lafzuna.com/blog/s-29940/
ٹھیک اسی طرح عمران نیازی نے پارٹی بنائی لیکن ورلڈ کپ جیتنے اور شوکت خانم ہسپتال بنانے کے باوجود وہ 1997ء کے الیکشن میں ایک سیٹ بھی نہ جیت سکا۔ بعد میں مشرف کا ساتھ دینے اور اس کے ریفرنڈم میں سرگرم رہنے کے عوض صرف میاں والی والی میں ایک سیٹ حاصل کر پایا…… مگر اکتوبر 2011ء میں عمران اور اس کی پارٹی طلسماتی طور پر جادوگر کے ہیٹ سے خرگوش کی طرح نئی رنگ و روپ میں بر آمد ہوئے۔ وہ عمران خان جس کے بیان کو اس سے پہلے اخبارات سٹی پیج سے زیادہ کسی اور جگہ بمشکل چھاپتے تھے، اب میڈیا کے آنکھ کا تارا بن گیا۔ 2014ء کے دھرنے کے بعد تو میڈیا (خصوصاً الیکٹرانک میڈیا) کے کیمرے 24 گھنٹے عمران خان کے انتظار میں ہوتے، یہاں تک کہ خالی کرسیاں دکھائے بغیر ان کے خطاب کو شروع سے لے کر آخری لفظ تک لائیو دکھایا جاتا۔ بعد میں اُس کے ہر جلسے کو اسٹیج لگنے سے پہلے وقفے وقفے سے دکھانا شروع کیا گیا کہ دیکھیں، اب اسٹیج بن رہا ہے، اب کرسیاں لگ رہی ہیں، اب لوگ آنا شروع ہوگئے ہیں اور یوں تمام کے تمام چینل شب و روز اس عمل میں لگے رہتے۔ اس طرح رات کو تقریباً ہر ٹاک شو کا موضوع وہی جلسہ ، عمران کی تقریر اور دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کی کردارکشی پر گرم رہتا۔ میرا نہیں خیال کہ تاریخ میں عمران جتنی کوریج اور پبلسٹی کسی اور سیاسی لیڈر کو ملی ہو۔
عمران کے مداحوں کی طرح صوفی محمد کے پیروکار بھی اپنے علاوہ باقی جماعتوں کے کارکنوں کو کفریہ نظام کے چیلے سمجھتے تھے۔ اس کے سامنے سیاست یا دوسری جماعت یا لیڈر کا نام لیتے ہی فتوے بازی شروع ہو جاتی اور کہتے کہ تم اب تک اس کفر اور شرک کا ساتھ دیتے ہو؟ ملاکنڈ کے ٹاپ پر بلا روک ٹوک ایک ہفتہ دھرنا دینے سے یہ اتنے شیر ہوگئے تھے کہ آئے روز کسی نہ کسی سرکاری عمارت خصوصاً پولیس سٹیشن اور عدالتوں کا گھیراؤ کرتے۔
کچھ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں:
https://lafzuna.com/blog/s-29739/
ایک دن سہ پہر کے وقت اطلاع ملی کہ صوفی نے جہاد کا اعلان کردیا ہے اور بندوقوں کے ساتھ کانجو ایف سی کیمپ پہنچنے کا کہا ہے۔ یار لوگوں نے کیمپ اور ایئرپورٹ کا محاصرہ کرلیا۔ کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ فورسز نے ان کو منتشر کرنے کے لیے ایکشن شروع کرلیا…… لیکن شاید اُس وقت ریاست اِس عمل کی توقع نہیں کررہی تھی۔ دوسری طرف اُس وقت کے فرنٹیر کور کے آئی جی نے تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنا نقصان اٹھایا، لیکن بڑے پیمانے پر خون خرابے کو رُکوادیا۔ انھوں نے صوفی محمد کو اپنے ساتھ بکتر بند گاڑی میں سوار کرکے لوگوں کو واپس اپنے گھروں کو جانے کے لیے کہا۔ صوفی نے کہا کہ مَیں نے جہاد کا اعلان نہیں کیا تھا اور فورسز کے جو بندے مارے گئے ہیں، وہ ’’شہید‘‘ ہیں۔
اس کے بعد جب ایک بار کبل پولیس اسٹیشن کے گرد غیر مسلح محاصرہ نما دھرنا دیا اور پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کی، تو سب بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ان کو پتا چلا کہ اب لاڈلا پن ختم، تب یہ سلسلہ رُک گیا۔ اس کے بعد ڈھیر سارے تو توبہ تایب ہوکر پھر سے روایتی پارٹیوں میں چلے گئے۔ کچھ ناامید ہوگئے۔ کیوں کہ اُن کی خیالی خلافت ہوا میں تحلیل ہوگئی جب کہ کچھ بعد میں فضل اللہ کی شکل میں نمودار ہوگئے۔
عمران نیازی کے پاس بھی پروپیگنڈا اور خیالی خلافت کے تصور کے علاوہ کچھ نہیں۔ ان کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔
راقم نے جولائی 2018ء میں الیکشن کے بعد اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ عمران حکم رانی کے سمندر میں کنارے پر کھیلے گا اور میڈیا اس کے لیے ماحول سازگار رکھے گا۔ جو قرضے 1947ء سے جولائی 2018ء تک مختلف حکومتوں نے لیے تھے، اس کے تقریباً آدھے اس کی حکومت نے پونے چار سال میں لیے۔
اساتذہ رول ماڈل کیوں نہیں رہے: 
https://lafzuna.com/blog/s-29554/
جب عمران کے پاس خیبر پختونخوا کی حکومت تھی، تو دھڑلے سے کہتا تھا کہ سب کچھ تو وفاق کے پاس ہے، جب وفاقی حکومت ملی، تو الزام 18ویں ترمیم پر لگانا شروع کیا کہ اب تو وفاق کے پاس کچھ نہیں، سب کچھ تو صوبوں کے پاس ہے۔ پھر سوئی پارلیمانی نظام پر اٹکی کہ یہ خراب ہے، صدارتی نظام ہونا چاہیے۔ نالایقی، ہٹ دھرمی اور انا کی وجہ سے معیشت اور خارجہ تعلقات کا بیڑا غرق کردیا۔ بحالی میں اب کئی سال لگیں گے۔ اس کے سر پر یہ خبط سوار تھا اور اب بھی ہے کہ مَیں دنیا کی عظیم ہستی ہوں۔ اس لیے دنیا کے کسی لیڈر کی میرے سامنے کیا وقعت! ہر عالمی رہنما اور سفارت کار پر اپنے مداحوں یا مراد سعید و فواد چودھری کا گمان ہوتا اور یوں جہاں بھی جاتا، نخرہ کرکے پاکستان کو سفارتی طور پر فارغ کردیتا۔ دیگر سیاسی لیڈروں کا بیان اگر سالوں میں بدلتا، تو عمران کا گھنٹوں میں۔ جہاں سے اس کو سچ آنے کا خطرہ ہو، یہ پہلے سے اُس پر الزام لگانا شروع کردیتا ہے۔ مثلاً: جب اس کو پتا چلا کہ فارن فنڈنگ کیس میں فیصلہ اس کے خلاف آنے والا ہے، تو کئی مہینے پہلے اپنے لگائے ہوئے الیکشن کمشنر کے خلاف دن رات پروپیگنڈا کرنے میں لگ گیا۔ حالاں کہ ہر جانے والے کو پتا تھا کہ یہ ایک ناقابلِ دفاع کیس تھا، لیکن اس کے سرپرست آٹھ سالوں سے اس کا فیصلہ نہیں ہونے دے رہے تھے۔ اس کو خود پتا ہے کہ اس کے بے شمار غیر اخلاقی ویڈیوز کہیں پڑی ہوئی ہیں، لیکن سیاسی حالات بدلنے کے بعد جب اس کو اُن ویڈیوز کے لیک ہونے کا خوف پیدا ہوا، تو یہ واویلا شروع کردیا کہ اس کی جعلی ویڈیوز بنادی گئی ہیں۔
اگر یہ راستہ نہیں چھوڑا گیا، تو مجھے عمران اور اس کے مداحوں کا آخری انجام اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیوں کہ یک طرفہ پروپیگنڈا، اپنی مرضی کے اینکرز اور سامعین کے سامنے بیٹھ کر دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے، اپنے اعمال بارے کسی سوال کی اجازت نہ دینے کا عمل کب تک کارگر ثابت ہوگا؟ جھوٹ اور نفرت کے پرچار سے اس کی مقبولیت کے غبارے میں ہوا بھر دی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ جھوٹ اُڑتا ہے اور سچ چل کر دیر سے پہنچتا ہے، لیکن جب پہنچ جاتا ہے، تو جھوٹ دھڑام سے گرتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔