وکی پیڈیا کے مطابق خواجہ خورشید انور (Khwaja Khurshid Anwar) مشہور پاکستانی موسیقار، تمثیل نگار، شاعر اور ہدایتکار، 30 اکتوبر 1984ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
21 مارچ 1912ء کو میانوالی میں پیدا ہوئے۔مہدی حسن کی آواز میں ’’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘ ‘، نورجہاں کی آواز میں ’’دل کا دیا جلایا‘‘، ’’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘‘ اور اِن جیسے اَن گنت لافانی گیتوں کے خالق تھے۔ والد خواجہ فیروز الدین ایک مشہور وکیل تھے۔
خواجہ خورشید انور نے 1935ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفے میں ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں آئی سی ایس کا امتحان تو پاس کر لیا، لیکن کالج کے ابتدائی زمانے میں جب انقلابی تنظیم نوجوان بھارت سبھا کے رہنما ’’بھگت سنگھ‘‘ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ لاہور بوسٹل جیل میں سزائے موت کا انتظار کر رہے تھے، تو اِسی تنظیم کا رُکن ہونے کی پاداش میں خواجہ صاحب کو جیل جانا پڑا۔ بعد میں یہی وجہ رہی کہ انگریز سرکار نے انڈین سول سروس کے لیے مناسب نہ سمجھا۔
تخلیقی سفر کا آغاز ویسے تو 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوتا ہے، لیکن یہ بات 1941ء کی ہے جب خواجہ صاحب کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کی پہلی فلم کڑمائی بمبئی (اب ممبئی) سے ریلیز ہوئی اور یوں گلوکارہ راجکماری کی آواز میں ’’ماہی وے راتاں‘‘ سے فلمی موسیقی کے سفر کا آغاز ہوا۔ 1953ء میں بمبئی سے لاہور منتقل ہونے کے بعد مجموعی طور پر 18 فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں ’’انتظار‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘ اور ’’کویل‘‘ جیسی کامیاب فلمیں شامل ہیں۔ فلم انتظار کا گانا ’’چاند ہنسے دنیا بسے روئے میرا پیار‘‘ خواجہ صاحب کی موسیقی میں گلوکارہ نورجہاں کا گایا ہوا پہلا گانا ہے۔
1962ء میں گھونگھٹ فلم کے لیے بہترین موسیقی کے اعزاز میں ’’نگار ایوارڈ‘‘ اور 1980ء میں اس وقت کے صدر کے ہاتھوں ستارۂ امتیاز حاصل کیا۔