بحرین کے سابقہ خوب صورت بازار (اب تباہ شدہ) کے وسط میں دریائے سوات کے اُوپر چٹان سے لگا ہوا ایک ’’کڑھا پل‘‘ تھا۔ اس کو ہماری توروالی میں ’’کڑھا سی ھئی سی سہ‘‘ کہتے تھے۔ یہ نہ صرف سوات بلکہ پورے شمالی پاکستان میں معروف ترین خوب صورت پلوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کی خوبی کچھ اور نہ تھی، بس اس جگہ پہ ایک طرف سنگلاخ چٹان اور دوسری طرف بحرین کے اس خوب صورت بازار اور اس پل کے نیچے سے بہتا ہوا دریائے سوات کا منظر تھا۔
اس پل کو میں نے غلطی سے ’’سیلفی بریج‘‘ (Selfie Bridge) کا نام دیا اور یوں یہ اس نام سے بھی جانا جانے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ شاید ہی کوئی دوسرا پل ایسا ہو جہاں سیاح جاکر اس کثیر تعداد میں سیلفیاں بناتے ہوں۔ یہ تصاویر کے لیے ایک متاثرکن جگہ تھی۔
2010ء کے سیلاب میں یہ بہہ گیا، تو درولئی گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ اور کچھ چندوں کی مدد سے اس کی تعمیر کی اور اس کو چھوٹی گاڑیوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ بعد کے کسی الیکشن کے دوران میں پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے رہنما امیر مقام نے اس کی مرمت کروائی اور اس کو کچھ حد تک مضبوط بنایا۔
تاہم 2010ء کے سیلاب کے بعد پورے علاقے کے کئی گاؤں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے سٹیل پل بن گئے، مگر درولئی کا ذکر شدہ پل ہنوز ایسا ہی رہا۔ رواں سال اگست کی 26 تاریخ کے تباہ کن سیلاب نے ایک بار پھر اس پل کو ڈھا دیا۔ اس بار بحرین بازار کا حلیہ 2010ء سے بھی زیادہ خراب ہوا۔
درولئی کے لوگوں نے یہاں دوبارہ پل بنانے کی ٹھانی، تاہم کئی لوگوں نے یہاں گاڑیوں کے لیے کسی عارضی پل کی مخالفت کی کہ ان کے خیال میں اگر اس بار بھی ایسا عارضی پل بن گیا، تو وہ مستقل ہوجائے گا اور یوں یہ گاؤں ایک بار پھر مضبوط پل سے محروم رہ جائے گا۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ یہاں عارضی طور پر پیدل چلنے کے لیے پل تعمیر کروایا جائے۔ کسی نے یقین دہانی کرائی کہ وہ جیب سے رقم دے گا، اس لیے لوگوں نے جلدی جلدی ایک دو دنوں میں جنگل سے لکڑی لاکر اسے تیار کیا، تاہم وہ جیب والی رقم کا وعدہ شاید کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا معاملہ دو ہفتوں سے زیادہ عرصے تک لٹکا رہا۔ پھر ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی سے یہاں کے پی ٹی آئی کارکنوں اور مقامی لوگوں نے رابطہ کیا۔ کیوں کہ جیب والی نقد رقم کا وعدہ ان کے بھائی نے کیا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق ڈاکٹر حیدر علی نے محکمۂ تعمیرات "C and W” سے رابطہ کیا اور ان کو اس پل پر کام کرنے کو کہا (ایسا رابطہ 2 ستمبر کو بھی مقامی سطح پر کیا گیا تھا، تاہم جیب والی نقد رقم کے وعدے نے آگے جانے سے روکا۔ کیوں کہ ایمرجنسی میں کون ٹھیکیداروں کے معمول کے مطابق کام کا انتظار کرسکتا ہے؟)
خیر سی اینڈ ڈبلیو کے ٹھیکیدار سے کام شروع کروایا اور اس سلسلے میں ایم پی اے میاں شرافت علی نے بھی اچھی سہولت کاری کی۔ کیوں کہ سی اینڈ ڈبلیو کے کام صوبائی حکومت کے دایرۂ اختیار میں آتا ہے۔
خیر، پل پر کام شروع ہوا اور ایک مہینے کے بعد یہ پل پیدل جانے کے لیے بحال ہوا۔ یہاں گاڑیوں کا پل اس وجہ سے بھی نہیں بنایا گیا، کیوں کہ بحرین بازار کی بحالی ایسے کسی پختہ کام سے پہلے لازمی تھی۔
یادش بخیر! ایک بار سوات کے ڈی سی جناب جنید خان سے سیلاب سے پہلے اس پل کا ذکر کیا، تو انھوں نے بتایا کہ ان کی اور ایم پی اے کی نظر میں اس جگہ ’’کائٹ‘‘ نامی منصوبے کے تحت شیشے والا کوئی پل (چائینہ طرز) پر ہے، تاکہ یہاں کا حسن بڑھا کر اس کو سیاحوں کے لیے کشش کا ایک اور ذریعہ بنایا جاسکے۔ ’’کائٹ‘‘ والے اس منصوبے کا کیا ہوا؟ ایم پی میاں شرافت علی اور ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان ہی بتا سکتے ہیں۔
اب کچھ خوش خبریاں یہ ہیں کہ درولئی کے لیے ایک عارضی سٹیل پل اور ایک دوسرا آر سی سی پل ایم پی اے کی کوششوں سے منظور ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں گاؤں کی سطح پر ساری تیاریاں ہوچکی ہیں۔ بس کام شروع کرنے کی دیر ہے۔
واضح کرتا چلوں کی درولئی کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس پل سے چٹان کی طرف راستہ خود بنایا اور آگے جاکر بڑی چٹان پر لاکھوں لاگت کی بلاسٹنگ کی۔ اب اسی جگہ راستے پر گذشتہ کئی دنوں سے درولئی کے مسلم لیگ نون کے کارکنوں، رہنماؤں اور بھائی ملک جہانگیر کی وساطت سے امیر مقام نے ایک ایکسکویٹر لگوایا ہے جس نے بہت بہتر کام شروع کیا ہے۔
شروع میں جب لوگوں نے خود اپنے وسایل سے کام شروع کیا، تو مایوس تھے کہ اس وقت کوئی نہیں پوچھتا تھا۔ ہم نے بس کہا حوصلہ نہ ہاریں…… لوگ خود بخود آئیں گے۔
اب سنا ہے ایک دو کلومیٹر سڑک کا منصوبہ بھی ہے۔ ساری باتیں اچھی ہیں۔ لوگوں کے لیے…… خصوصاً یہاں سے سیکڑوں طلبہ اور خواتین کے لیے یہ سہولتیں اہم ہیں۔ اب امید ہے انسانوں کے لیے دریا کو پار کرنے کے ان جھولوں (زانگو) کی ضرورت نہ رہے گی۔
یہاں سے جتنے طلبہ و طالبات سکول جاتے ہیں، ان کو اب ہر صورت میں اس پل کو استعمال کرنا چاہیے اور جھولوں میں دریا کے اوپر مزید جھولنے سے بچنا چاہیے۔ ممکن ہے کئی نوخیز طلبہ اس کو جھولنا سمجھ کر مذکورہ جھولوں کا اب بھی استعمال کریں۔ ایسی صورت میں والدین کو چاہیے کہ ان کو منع کیا جائے کہ مزید حادثات سے بچا جاسکے۔
’’کائٹ‘‘ منصوبے کے تحت اس سیلفی پل کو نئے انداز میں بنانا لازمی ہے۔ کیوں کہ یہ کڑھا والا پل بحرین اور درولئی گاؤں کا تاریخ ورثہ بھی ہے…… اور سیاحوں کے لیے کشش بھی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
