جمہوری طرزِ حکومت، حکومت کی وہ شکل ہے جس میں لوگوں کا منتخب نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس طرزِ حکومت میں سربراہِ حکومت منتخب کیا جاتا ہے، جس کو بادشاہت عطا نہیں ہوتی بلکہ یہ سربراہ ایک عوامی نمائندے کی حیثیت سے تمام فیصلے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق کرتا ہے۔
جمہوریت آمریت کی ضد ہے۔ کیونکہ اس میں نظامِ حکومت خود عوام یا عوامی نمائندوں کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ جمہوریت کے ثمرات صرف اس وقت اصل معنوں میں حاصل کئے جاسکتے ہیں، جب اسمبلیوں میں عوام کی صحیح معنوں میں نمائندگی ہو اور عوامی نمائندگان کا انتخاب شفاف طریقے سے کیا جائے۔ لیکن اسے ہماری بدقسمتی کہیں یا سماجی شعور کی کم علمی، تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہونے والے تمام انتخابات آمریت کے سائے میں ہوئے ہیں۔ ہم الیکشن میں دھاندلی سے بچنے کے لئے فوج کو بلاتے ہیں اور اس کی نگرانی میں سارا جمہوری عمل طے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سویلین اداروں پہ ہمارا اعتبار ہی نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ الیکشن لڑنے والے امیدوار کے پاس الیکشن کمپین اور دوسرے تقاضے پورا کرنے کے لئے کم از کم ایک دو کروڑ ہونے چاہئیں۔ کیوں کہ اس کے بغیر وہ جمہوریت کی خدمت نہیں کرسکتا، یعنی آسان الفاظ میں ایسا امیدوار الیکشن نہیں جیت سکتا۔ پھر بھولے بھالے عوام اپنے امیدوار سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل کو اجاگر کرے گا۔ ان کا حل پیش کرے گا۔ ارے، وہ ایسا کیونکر کرے گا؟ کیوں وہ آپ کے مسائل حل کرنے کے لئے تگ و دو کرے؟ ظاہر سی بات ہے کہ وہ پیسے جو اس نے اپنی زمینیں بیچ کر، اپنے روزگار کو داؤ پر لگا کر یا کسی سے ادھار لے کر الیکشن میں انویسٹ کئے ہیں، وہ آپ کے لیے تھوڑی کئے۔ اس نے تو اپنے انویسٹمنٹ کی وصولی بھی کرنا ہوتی ہے۔ ایسا عوامی نمائندہ عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ وہ تو روزگار کی غرض سے آیا ہوا ہوتا ہے نہ کہ آپ کی خدمت کرنے۔
ملک میں موجود جمہوری نظام میں کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو عوامی خدمت کا جذبہ لئے سیاست میں آئے ہوں گے۔ باقی ماندہ عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات اپنے کاروبار کو وسعت دینے سیاست کا رُخ کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران جمہوریت کو صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حکمران اور سیاسی رہنما جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اپنے کامیاب روزگار کا تسلسل بھی چاہتے ہیں ۔جس سے غریب، غریب تر ہو رہا ہے۔
احتساب کے نام پر سیاسی بلیک میلنگ ہو رہی ہے۔ عام آدمی زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں پھنسا ہوا ہے۔ عام آدمی کو تو یہ تک نہیں پتا کہ ہم پر بادشاہ نما حکمران مسلط ہیں یا نمائندے؟ یہ حکمران سوچ والا طبقہ پہلے ہمیں رگڑتا ہے اور بعد میں گلی، کوچوں اور محلوں کی پختگی سے ہم پر اپنا حق جتاتا ہے۔
اس نظام میں شروع ہی سے خامیاں ہیں۔ جس کے ٹھیک ہونے میں بہت عرصہ لگے گا۔ لیکن اب بھی اگر ہم اپنے حقوق کو پہچانیں اور آنے والے انتخابات میں کسی ’’کم چور‘‘ کو منتخب کریں، تو آہستہ آہستہ ہی سہی، یہ نظام ٹھیک ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر کچھ نہیں ہوسکتا۔
……………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔