عموماً ’’لالا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا ’’لالہ‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’لالا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’صاحب‘‘، ’’جناب‘‘، ’’حضرت‘‘، ’’میاں‘‘، ’’مہاجن‘‘، دُکان دار‘‘، ’’بنیا‘‘، ’’عزیز‘‘، ’’پیارا‘‘ وغیرہ کے ہیں اور ’’لالہ‘‘ ایک قسم کے سُرخ مشہور پھول کا نام ہے۔
مگر ’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ عامرہ‘‘، ’’علمی اُردو لغت (متوسط) کے مطابق ’’لالا‘‘ اور ’’لالہ‘‘ دونوں طرح کا اِملا صحیح ہے۔
دوسری طرف فرہنگِ آصفیہ میں ’’لالا‘‘ اور ’’لالہ‘‘ دونوں طرح کا اِملا لکھا گیا ہے، مگر یہ صراحت بھی درج ملتی ہے: ’’صحیح اِملا ’لالا‘ ہے۔‘‘
صاحبِ آصفیہ نے دو مختلف اشعار نقل کیے ہیں جن میں ’’لالا‘‘ درج ہے نہ کہ ’’لالہ‘‘:، پہلا شعر کسی نامعلوم شاعر کا ہے، ملاحظہ ہو:
نِردئی سے پریت کرے نہ کوئی
جاؤ لالا جو بھئی سو بھئی
دوسرا شعر حضرتِ بحرؔ کا ہے:
وضع رکھتا ہے سپاہی کی وہ خالِ ہندو
میرزائی پہ کمر باندھے ہے لالا ہوکر
اُردو اِملا پر سند کی حیثیت رکھنے والے رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح اِملا)‘‘، مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ کے صفحہ نمبر 123 پر ’’لالا‘‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں: ’’جیسے لالا دُرگا پرشاد‘‘ اور ’’لالہ ‘‘ کے ذیل میں ’’ایک مشہور پھول‘‘ لکھتے ہیں۔
حاصلِ نشست:
’’صاحب‘‘، ’’جناب‘‘، ’’حضرت‘‘ یا محولہ بالا معنوں میں استعمال ہونے والے لفظ کا اِملا ’’لالا‘‘ لکھنا بہتر ہوگا، جب کہ ’’لالہ‘‘ دو صورتوں میں لکھا جائے۔ پہلی صورت ’’پھول‘‘ کے معنی کے طور پر۔ دوسری صورت ’’درخشاں‘‘ یا ’’روشن چمکنے والا‘‘ کے معنی کے طور پر۔ رشید حسن خان کے وضع کردہ کلیے کے مطابق ہندی الاصل الفاظ ہائے ہوز کی جگہ الف سے لکھے جائیں گے، جیسے ’’دھماکہ‘‘ کی جگہ ’’دھماکا‘‘ اور ’’پٹاخہ‘‘ کی جگہ ’’پٹاخا‘‘….. اس کلیے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ’’لالا‘‘ لکھنا بہتر ہوگا۔