’’راجا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا عموماً ’’راجہ‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’نور اللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘، ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ اور ’’اظہر اللغات (مفصل)‘‘ کے مطابق صحیح اِملا ’’راجا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’فرماں روا‘‘، ’’بادشاہ‘‘، ’’رئیسِ بااختیار‘‘، ’’حاکم‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
جہانگیر اُردو لغت (جدید) کے مطابق بھی صحیح اِملا ’’راجا‘‘ ہے مگر ذیل میں ’’راجہ اندر‘‘ درج کیا گیا ہے، جس کی کوئی تُک نہیں بنتی۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’اُردو کیسے لکھیں؟ (صحیح اِملا)‘‘، مطبوعہ ’’رابعہ بُک ہاؤس‘‘ کے صفحہ نمبر 114 پر ’’راجا‘‘ ہی کو صحیح اِملا مانتے ہیں۔
اس طرح صاحبِ آصفیہ، حضرتِ ناسخؔ کا ایک شعر رقم کرتے ہوئے گویا ’’راجا‘‘ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ
کرتے ہیں پریوں سے کشتی پہلوانِ عشق ہیں
ہم کو ناسخؔ راجا اندر کا اکھاڑا چاہیے
دوسری طرف صاحبِ نور، حضرتِ منیرؔ کا یہ شعر درج کرتے ہیں:
محرومِ وصل گوہرِ دنداں سے ہے منیرؔ
راجا کے گھر میں موتیوں کا کال ہوگیا