عام طور پر ’’چکما‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا ’’چکمہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔
’’’نوراللغات‘‘، ’’فرہنگِ آصفیہ‘‘، ’’جہانگیر اُردو لغت (جدید)، ’’علمی اُردو لغت (متوسط)‘‘ اور ’’جدید اُردو لغت (طلبہ کے لیے)‘‘ کے مطابق دُرست اِملا ’’چکما‘‘ ہی ہے جب کہ اس کے معنی ’’فریب‘‘، ’’دھوکا‘‘، ’’جُل‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
جہانگیر اُردو لغت (جدید) نے ’’چکما‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے: ’’نیز چکمہ۔‘‘ مگر ذیل میں جتنے محاورے درج کیے ہیں، اُن میں ’’چکما‘‘ درج ہے نہ کہ ’’چکمہ‘‘ جیسے ’’چکما دینا‘‘، ’’چکما کھانا‘‘ وغیرہ۔
اس حوالے سے سب سے مستند حوالہ رشید حسن خان کی کتاب ’’اُردو املا‘‘ میں ہاتھ آتا ہے جس کے صفحہ نمبر 94 پر ہندی الاصل الفاظ کی ایک فہرست موجود ہے۔ مذکورہ فہرست میں ’’چکما‘‘ بھی درج ہے۔
صاحبِ آصفیہ نے شاعر کے حوالے کے بغیر ذیل میں درج کیا جانے والا شعر دیا ہے، جس سے گویا ’’چکما‘‘ کے اِملا پر مہرِ تصدیق ثبت ہوجاتی ہے:
کس کو معلوم نہیں گنجفہ بازی تیری
کون سا فرد بشر ہے جسے چکما نہ دیا
(چکما دینا: گنجِیفہ بازی کی ایک اصطلاح جس میں حریف کو اُس پتے سے دھوکا دیتے ہیں جس سے وہ واقف ہوتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ)
نوراللغات میں یہی اصطلاح ’’گنجفہ بازی‘‘ درج ہے۔