’’مائنڈ فلنس‘‘ (Mindfulness)

ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق لوگ دن میں 47 فی صد وقت ان معاملات کے متعلق سوچنے میں گزار دیتے ہیں جو ہمارے اردگرد وقوع پذیر نہیں ہو رہے ہوتے۔ یعنی آوارہ صفت دماغ یا تو ماضی میں رہتا ہے یا پھر اسے مستقبل کی فکر کھائے جاتی ہے، یا ایسے معاملات پر اپنا وقت برباد کرتا ہے جو نہ کبھی ہوئے اور نہ شاید انجام پاسکتے ہیں۔ انسانی دماغ فطرتاً آوارہ ہے اور اس غیر مرکوز دماغ کو سائیکالوجسٹ میتھیو اور ڈینیل گلبرٹ ’’ناخوش دماغ‘‘ کہتے ہیں۔
کسی حد تک ماضی کو یاد کرکے محظوظ ہونا یا سیکھنا، مستقبل کے متعلق پلاننگ کرنا درست ہے اور یقینا ضروری بھی…… لیکن آدھی زندگی ان دو زمانوں میں گزار کر ان کے درمیان موجود زمانۂ حال کو تجربہ نہ کرنا ہماری ناخوشی اور غیر مطمئن ہونے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
فطرتاً آوارہ دماغ کو حال میں لاکر مزید تیز، متوجہ اور مشاہدہ کرنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس تکنیک کو مائنڈ فلنس میڈی ٹیشن کہتے ہیں۔ مغرب میں شہرت حاصل کرنے والی سائنس سے ثابت شدہ تکنیک ’’مائنڈ فلنس‘‘ (Mindfulness) سدھارت گوتم کی میڈی ٹیشن ویپسنا کا ماڈرن اور مغربی ورژن ہے۔ اس میڈی ٹیشن کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔
نیوروسائنٹسٹ سیم حارث اپنی کتاب ’’ویکنگ اپ‘‘ میں مائنڈفلنس کو روحانیت یا مذہب سے دور رکھنے کی تلقین کرتے ہیں اور اسے محض دماغ کو موجودہ لمحے میں لانے کی ایک پریکٹس کہنے پر زور دیتے ہیں۔ محض ایک پریکٹس جس کے ذریعے ہم اپنے جذبات، احساسات، ضروری غیر ضروری میں تفریق کرنے پر، وقت گزرنے کے ساتھ، عبور حاصل کرنے لگتے ہیں۔
حقیقت کو اسی طرح سے پرکھنا جیسی وہ ہے، بنا کسی ملاوٹ یا جانب داری کے، یہ ہنر مائنڈفلنس سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اپنے جذبات اور تجربات کو بنا جج کیے، لیبل لگائے، نظریات کا رنگ چڑھائے…… بالکل اسی طرح سے مشاہدہ کرنا جس طرح سے وہ ہیں، روز مرہ کے معاملات میں ہمارے رشتوں، کیریئر، اور دیگر مسایل کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
تاریخ دان یووال نوح ہراری اپنی کتاب ’’21 لیسنز فار 21 سینچری‘‘ اور کئی انٹرویوز میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے مائنڈفلنس کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنایا ہوتا، تو ’’سیپین‘‘ اور ’’ہومو ڈیس‘‘ جیسی کتابیں وہ کبھی نہ لکھ پاتے۔ بقول ہراری کے مائنڈفلنس میڈی ٹیشن نے انہیں حقیقت کو پاپولر نظریات اور تجزیات سے علاحدہ کرکے پرکھنے اور سمجھنے کا ہنر سکھایا۔
آج سے 25 سو سال قبل شاید سدھارت گوتم کو اس تکنیک کی اتنی ضرورت نہ رہی ہوگی جتنی ماڈرن اور تیزی سے بدلتی دنیا کی پیچیدگیاں سمجھنے کے لیے ہم ماڈرن انسانوں کو ہے۔ کبھی نہ رُکنے والی اس ڈیجیٹل دنیا میں اپنے لیے دس منٹ نکالنا، ان لمحات میں اپنے احساسات، جذبات، دماغ میں آنے والی سوچیں اور ان کا پیٹرن نوٹ کرنا اور ان کا مشاہدہ بنا کسی ججمنٹ کے کرنا ہمارے دماغ میں کلیرٹی پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے، یہ دس منٹ کا مشاہدہ ہر گز آسان کام نہیں!
ہر تکنیک کی مانند یقینا مائنڈفلنس کی بھی اپنی حدود ہیں۔ یہ شاید آپ کی زندگی کے مسایل کا مکمل حل نہ نکال سکے، لیکن حقیقت کا سامنا کرنا اور اسے قبول کرنا بہت سے معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے کا نظریہ ضرور بدل دیتا ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے