گذشتہ ایک ماہ سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں زیرِ گردش رہیں کہ طالبان تحصیلِ مٹہ کی پہاڑیوں میں پہنچ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگ طالبان کی تصاویر بھی شیئر کرتے رہے۔ لوگوں میں ایک قسم کا خوف تھا۔ ہم سے پوچھا جاتا، تو ہم تسلیاں دیتے اور بتاتے کہ سوات میں پولیس اور فوج موجود ہے۔ وزیرِ اعلا سمیت وزرا اور اراکینِ اسمبلی تحریک انصاف کے ہیں۔ صوبائی حکومت اور ان کی فورسز کی موجودگی میں ایسا نہیں ہوسکتا۔
7 اور 8 اگست کی درمیانی شب تحصیلِ مٹہ کے چپریال پولیس سٹیشن پر حملہ کی اطلاع ملی۔ ذرایع نے بتایا کہ مسلح افراد نے تھانہ چپریال پر مختلف اطراف سے حملہ کیا لیکن صبح پولیس کا موقف آیا کہ حملہ نہیں ہوا بلکہ مشکوک شخص کو دیکھ کر پولیس نے فائرنگ کی ہے۔
اُسی دن اطلاع ملی کہ مٹہ کی بالائی پہاڑی پر طالبان نے ڈی ایس پی مٹہ اور فوج کے افسران کو یرغمال بنالیا ہے۔ اس بارے پولیس اور انتظامیہ سے تصدیق یا تردید کے لیے رابطہ کیا گیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ پولیس اور فوج کے افسران کے یرغمال ہونے کے بعد پولیس اور فوج کی بڑی تعداد کو مٹہ کی پہاڑیوں پر جاتے دیکھا گیا۔ سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی خبریں زیرِ گردش تھیں…… لیکن حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا، جس کی وجہ سے اہلِ سوات میں بے چینی بڑھتی گئی۔ ہمیں ذرایع سے اطلاعات ملتی رہیں کہ تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقہ ’’کنالہ‘‘ میں کافی تعداد میں طالبان موجود ہیں، جو افغانستان سے براستہ دیر سوات داخل ہوئے ہیں اور وہاں پر اپنے کیمپ قایم کیے ہوئے ہیں۔
اس دوران میں طالبان کی ایک آڈیو سوشل میڈیا پر گردش میں آگئی…… جس میں ایک کمانڈر کَہ رہا ہے کہ ہمارے ساتھ معاہدہ ہوا ہے کہ ہم واپس اپنے علاقوں میں آسکتے ہیں…… لیکن اس کے باوجود فورسز ہمارے علاقے میں آئیں، تو اس لیے ہم نے ان کو گرفتار کرلیا۔
سوات پولیس کے ’’پبلک رلیشن آفیسر‘‘ (پی آر اُو) جو پانچ گرام چرس پکڑنے کے بعد لمحوں میں میڈیا کو پریس ریلز جاری فرما دیتے ہیں، اس واقعے کے بارے میں صحافیوں نے آپ جناب سے بار بار رابطہ کیا جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ افسرانِ بالا سے رابطہ نہیں ہوپا رہا۔
9 اگست کی صبح خبر ملی کہ زخمی ڈی ایس پی پولیس ’’پیر سید‘‘ کو رہا کردیا گیا…… جو طالبان کی فائرنگ سے زخمی ہوا تھا۔ ان کو طبی امداد کے لیے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا…… لیکن صحافیوں کو ان کے ساتھ ملاقات کی اجازت دی گئی اور نہ پتا ہی چل سکا کہ کیا ہوا ہے یا آگے کیا ہونے والا ہے؟
آخرِکار 9 اگست کی شام محکمۂ پولیس سوات کی جانب سے اس واقع کے بارے میں ایک پریس ریلز جاری کی گئی۔ سرِ دست وہ پریس ریلیز پڑھ لیں:
’’کل مورخہ 08 اگست 2022ء کو ڈی ایس پی سرکل مٹہ پیر سید خان پولیس نفری کے ہم راہ کنالہ، تحصیلِ مٹہ کے علاقے میں سرچ آپریشن میں مصروف تھے کہ اسی اثنا میں دہشت گردوں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ شروع کی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان زخمی ہوگئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ فائرنگ کا واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد ڈی پی اُو سوات زاہد نواز مروت کی نگرانی میں سی ٹی ڈی، ضلعی پولیس اور ایلیٹ فورس نے موقع پر پہنچ کر علاقے میں سرچ آپریشن مزید تیز کردی اور زخمی ہونے والے ڈی ایس پی مٹہ پیر سید خان کو دشوار گزار پہاڑیوں سے اُتار کر فوری طور پر ریسکیو 1122 کے ذریعے سیدو شریف ہسپتال پہنچایا گیا، جس کا علاج معالجہ جاری ہے۔ فرار دہشت گردوں کی تلاش اور گرفتاری کے لیے تحصیلِ مٹہ کے پہاڑوں اور جنگلات میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ ‘‘
سوات پولیس کی اس پریس ریلیز کے بعد طالبان کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں تین یرغمالی افسران کو دکھایا گیا ہے…… جن میں دو افسران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور زخمی پولیس ڈی ایس پی زمین پر پڑا ہے۔ ویڈیو بنانے والا طالب کمانڈر پہلے شخص سے پوچھتا ہے کہ آپ کا عہدہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے: ’’مَیں میجر ہوں۔‘‘ اس طرح دوسرا آفیسر بھی اپنا عہدہ بتاتا ہے۔ تیسرا آفیسر جو زخمی حالت میں زمین پر پڑا ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا نام کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ ’’پیر سید۔‘‘ طالب کمانڈر پوچھتا ہے کہ کہاں کہ رہنے والے ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ’’پیر بابا بونیر کا۔‘‘ طالب کمانڈر پوچھتا ہے کہ اس وقت ڈیوٹی کہاں پر ہے؟ زخمی آفیسر بتاتا ہے کہ ’’ڈی ایس پی مٹہ سر کل ہوں۔‘‘
اب پولیس پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ’’جوابی فائرنگ سے دہشت گرد فرار ہوگئے۔‘‘ اور طالبان نے جو ویڈیو جاری کی ہے، اس کا جایزہ لیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پولیس بیان اور ویڈیو میں ’’کھلا تضاد‘‘ ہے۔ اس واقعے نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے کہ
٭ طالبان واپس کیسے آئے؟
٭ ہزاروں کی تعداد میں اس آپریشن کے لیے فورسز گئی تھیں، ان کی کارکردگی کیا ہے؟
٭ کیا یرغمال افسران کی رہائی کے بدلے کچھ اہم طالبان کمانڈروں کو رہا کیا گیا ہے؟
کیا طالبان کو ’’کنالہ‘‘ اور سوات کے دیگر علاقوں میں رہنے کی اجازت دی گئی ہے؟
٭ کیا اب طالبان ایک بار پھر سوات کے مختلف علاقوں میں پھیل جائیں گے؟
٭ اور سب سے بڑا سوال…… کیا 2007ء والے حالات دوبارہ قایم ہونے جا رہے ہیں؟
دیر کے عوام تو بہت بڑی تعداد میں امن کے قیام اور طالبان کے خلاف نکل پڑے ہیں، کیا سوات کے ’’سوئے ہوئے لوگ‘‘ اس بار بھی خوابِ غفلت میں رہیں گے…… یا سوات کے عوام، قومی جرگہ، منتخب ممبران، سول سوسائٹی سب مل کر پولیس، انتظامیہ اور حکومت سے اس واقعے کی حقیقت کے بارے میں سوال کریں گے؟
اس دفعہ سوات کے عوام کو جاگنا ہوگا۔ سوات میں ہزاروں کی تعداد میں موجود فورسز جو عوام کے ٹیکس سے تنخواہیں اور مُراعات لیتی ہیں…… ان سے پوچھنا ہوگا کہ ’’سانحۂ کنالہ‘‘ کے بارے میں ہمیں حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔ کنالہ میں فورسز نے طالبان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ طالبان کو وہاں رہنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اگر سوات کے لوگوں نے اُٹھ کر یہ سوالات نہیں کیے، تو پھر طالبان سوات کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر فورسز اور اہم شخصیات کو یرغمال بنائیں گے، بدلے میں اپنے گرفتار بندے چھڑائیں گے، یہاں اپنی رٹ دوبارہ قایم کریں گے، ہمیں روز ماریں گے، ایک بار پھر ہمیں آئی ڈی پیز بنائیں گے……! اگر اس وقت سوات کے عوام، سیاسی جماعتیں، قومی جرگہ، علاقہ کے مشران اور ہمارے قیمتی ووٹ سے منتخب ہونے والے ممبران نہیں جاگے، تو پھر ہم مجبوراً کہیں گے کہ ’’ ویلکم بیک طالبان!‘‘
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔