جماعت اسلامی پاکستان یا ’’جے آئی‘‘ ملک کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیس ویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی، جو عصرِ حاضر میں اسلام کے احیا کی جد و جہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں، نے قیامِ پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ہجری بہ مطابق 26 اگست 1941ء کو لاہور میں کیا تھا۔ وہ اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جد و جہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔
پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا لازم ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں اور مولانا کا شدید ترین مخالف یا ناقدبھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ مولانا ذاتی طور پر علم کا ایک سمندر تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین، ذہین ترین اور اعلا تعلیم یافتہ سیاسی راہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر میں کئی بار بھی جنم لوں، تب بھی مولانا کے علم تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح علمی حوالہ سے مولانا کو خان عبدالغفار خان، ولی خان، اصغر خان، ضیاء الحق، مولانا مفتی محمود وغیرہ خراجِ تحسین پیش کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مولانا کے فکری شاگردوں کی ایک بہت بڑی تعداد پاکستان سے باہر بھی اپنا موثر وجود رکھتی ہے۔ ترکی میں آج کے حکم ران، مصر کی سابقہ اخوان المسلمین، سعودی شاہی خاندان وغیرہ مولانا سے شدید متاثر ہیں۔ جے آئی آج بھی پورے جنوبی ایشیا میں بالخصوص اور دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں بالعموم ایک موثر اور قابل ذکر حلقہ رکھتی ہے۔
ایک کالم نگار اور سماجی و سیاسی کارکن کے طور پر میرا تعلق جماعت اسلامی اور جمعیت طلبہ اسلام کے کارکنوں سے بہت قریبی رہا بلکہ اب بھی ہے۔ مَیں ذاتی طور پر جماعت کی دینی تشریح اور خاص کر سیاسی فکر کا شدید ناقد تھا اور ہوں، لیکن مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ جماعتِ اسلامی کے اکثر کارکنان ذاتی حیثیت میں بہت حد تک اعلا کردار رکھتے ہیں۔ یہ جماعت فکری طور پر بھی کافی روادار رویہ رکھتی ہے۔ جماعت میں مسلک یا عقاید کی بنیاد پر کوئی عہدہ دیا جاتا ہے نہ اہمیت۔ سو اس وجہ سے ہر مسلک و عقاید رکھنے والا شخص جماعت میں اعلا سے اعلا عہدہ پاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جماعتِ اسلامی، خدمتِ خلق کے حوالے سے بھی بہت مثبت کردار کی حامل ہے۔
جماعتی طور پر یہ جماعت بہت مناسب جمہوری انداز رکھتی ہے، یعنی اس جماعت میں خاندانی اجارہ داری کی گنجایش نہیں اور جماعتی عہدے دار خالصتاً جمہوری طریقۂ کار سے بنائے جاتے ہیں بشمول امیر جماعت…… لیکن ان تمام تر خوبیوں کے باجود جماعتِ اسلامی پاکستان جیسے مذہبی رجحان رکھنے والے ملک میں پاور پالیٹکس کے حوالہ سے مکمل ناکام رہی ہے۔ شاید مستقبلِ قریب میں اس بات کا کوئی چانس نہیں کہ جماعت کوئی موثر عوامی یا پارلیمانی طور پر سیاسی قوت بن کر سامنے آئے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سلسلے میں جو مَیں سمجھا ہوں وہ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ باقی اگر کوئی جماعت کا دوست اس سے اتفاق نہیں کرتا، تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ جوابی بیانیہ دے۔ بہرحال میرے خیال میں جماعت اسلامی کا سیاست میں اسلام بارے نکتۂ نظر بہت حد تک بناوٹی رہا…… یعنی چوں کہ جماعت کو عام آدمی ایک مذہبی نکتۂ نظر سے دیکھتا ہے، سو وہ چند خامیاں شاید دوسرے سیاسی دھڑوں میں تو برداشت کرسکتا ہے لیکن کسی مذہبی نام کی جماعت کہ جس کی قیادت علما کر رہے ہوں، میں قبول نہیں کرتا۔ مَیں تاریخی طور پر چند مثالیں دینا چاہتا ہوں کہ جن کی تردید کا حق جماعت کے کارکنان کو بے شک حاصل ہے۔
٭ جماعت سطح پر اسی وقت شدید متنازعہ ہوگئی تھی جب اس نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت جماعت کا نکتۂ نظر حالات کے تحت بے شک ایک وزن رکھتا ہوگا، لیکن چوں کہ تب مسلم لیگ قایدِ اعظم کی قیادت میں ایک چومکھی جنگ لڑ رہی تھی، اس وجہ سے عام مسلمان کے دماغ میں جماعت کا ایک انتہائی منفی پہلو گہرا ہوا۔
٭ قیامِ پاکستان کے بعد جماعت بجائے عوامی رابطہ پر جاتی اور ملک میں ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر کردار ادا کرتی، اس نے ہمیشہ ہر برائی یا غلطی پر یہ بیانیہ دیا کہ ہمیں معلوم تھا، اس وجہ سے ہم نے تحریکِ پاکستان کی حمایت نہیں کی۔
٭ جماعت نے پہلی اور آخری دفعہ ایک فوجی آمر ایوب کی مخالفت کی اور اس کے مقابل محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ اس وجہ سے وہ کسی حد عوام میں جگہ بنا پائی۔ میرا خیال ہے کہ جماعت نے تبھی تن تنہا پہلی بار کچھ سیٹیں بھٹو کے سونامی اور مجیب کے سیلاب میں نکال لی تھیں۔
٭ اس کے بعد بدقسمتی سے جماعت یحییٰ خان کی سیاسی اور ضیا کی حکومتی گود کی مقیم ہوگئی۔
٭ جماعت، دین کے حوالے سے بھی اہم معاملات میں عوام کے سامنے بہت شدت سے ایکسپوز ہوئی۔ مثلاً ایوب کی آمریت غیر اسلامی اور ضیا کی اسلامی بن گئی۔ محترمہ فاطمہ جناح بطورِ خاتون صدر اسلامی جواز رکھتی تھیں، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو بطورِ خاتون وزیر اعظم غیر اسلامی ہوگئیں۔ سعودیہ کی بادشاہت شرعی تھی لیکن ایران کی بادشاہت غیر شرعی۔ افغان طالبان مجاہد لیکن پاکستانی طالبان دہشت گرد۔ ایک دن نواز شریف چور اور پھر آئی جے آئی میں اس کی قیادت میں انتخابات قبول۔ پھر مشرف دور میں شدید دوغلی پالیسیاں وغیرہ وغیرہ۔
اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے اکابرین کو ایک دفعہ مل بیٹھ کر اپنی سالوں پرانی پالیسیوں اور نظریات سے رجوع کر کے کم از کم سیاسی حوالے سے اپنا ایک جامع نکتۂ نظر عوام کے سامنے رکھنا ہوگا۔ کچھ غلطیوں کی معافی یا کم از کم اعتراف کرنا ہوگا۔ تبھی جماعت شاید عوام میں قبولیت کے اس مقام پر پہنچ سکے کہ جہاں وہ حکومت یائم کرپائے۔ ویسے میری ذاتی رائے میں جماعت کو پاور پالیٹکس کا حصہ نہیں بننا چاہیے، بلکہ عوامی مسایل کے ساتھ پریشرکی سیاست کرنی چاہیے۔ پریشر پالیٹکس میں بے شک جماعت ملک و قوم کی بہتری کی خاطر بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
بہرحال یہ ہماری گزارشات تھیں جو بیان کی گئیں۔ باقی فیصلہ جماعت کی قیادت و کارکنان نے خود کرنا ہے…… لیکن ہماری یہ خواہش ضرور ہے کہ جماعت جو اکثریت میں باکردار و مخلص کارکنان کی حمایت رکھتی ہے، وہ ملک و قوم کی خاطر بہتری کی نوید ہو۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔