سوویت شاعری میں غزل کا امام، علی آغا واحد

تحریر: سہیل یوسف 
سوویت شاعری میں روایتی غزل کو متعارف کروانے والے عظیم شاعر علی آغا واحد 1895ء میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں پیدا ہوئے۔ والد بڑھئی کا کام کرتے تھے۔
علی آغا نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی لیکن اس کو مکمل نہ کرسکے۔ اوایلِ جوانی میں کچھ عرصہ کے لیے وہ والد کے کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے، لیکن جلد ہی وہ اس کام کو چھوڑ کر ایک ادبی تنظیم ’’مجموش شعرا‘‘ میں شامل ہوگئے اور اس دور کے مشہور شعرا ’’منیری‘‘ اور ’’آذر امالیوف‘‘ سے متاثر ہو کر شاعری کرتے رہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی نظموں میں وہ معاشرتی ناہم واریوں، توہمات اور تنگ نظری پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان سب چیزوں کو معاشرے اور فرد کی ترقی میں رکاوٹ خیال کرتے ہیں…… لیکن جلد ہی وہ معروف غزل گو شاعر محمد بن سلیمان فضولی اور سید عظیم شیروانی کی رومانوی شاعری سے متاثر ہوکر غزل کی طرف متوجہ ہوئے۔
علی آغا کی غزل نے اُن کو شہرت کی اُن بلندیوں پر پہنچا دیا جو شاید فضولی اور شیروانی کے حصہ میں بھی نہ آسکی۔ سوویت شاعری میں ان کی غزل اتنی مشہور ہوئی کہ وہ غزل خواں کے لقب سے مشہور ہوئے۔
علی آغا واحد کا شمار بیسویں صدی کے پہلے نصف کے عظیم رومانوی شاعروں میں کیا جاتا ہے ۔ ان کے بارے میں بالعموم یہ کہا جا تا ہے کہ علی آغا فضولی کی شعری روایت کا امین ہے۔ انہوں نے آذربائیجان میں میخانہ (مشاعرہ/ ادبی محافل) کی روایت قایم کی۔ اس زمانے کی روایت کے خلاف انتہائی سادہ اور آسان زبان میں غزل لکھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ علم و ادب کے حلقے میں مرکزِ نگاہ بن گئے۔
مغام (آذربائیجان کی لوک موسیقی) جسے اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’یونیسکو‘‘ (UNESCO) کی طرف سے انسانیت کے لیے بے مثل ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ دنیا بھر سے موسیقی سے شغف رکھنے والے لوگ اس خوب صورت اور دل آویز موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے لیے آذر بائیجان کا رُخ کرتے ہیں۔ آج مغام گانے والا ہر فن کار علی آغا کی غزلیں گانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
کسی بھی شاعر کی تخلیقیت اور اس کا کام اس دور کے حالات اور لوگوں کے خیالات سے جدا نہیں رہ سکتا، جس میں وہ زندہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارا شاعر سوویت اقتدار کی بالادستی کا نقیب نظر آتا ہے۔
علی آغا سویت نظریات سے اس قدر مثاثر ہوئے کہ اس دور کے معروف جرائد ’’کیمونسٹ‘‘ اور ’’ملا نصیرالدین‘‘ سے منسلک ہوگئے۔ وہ آخری وقت تک سوویت انتظام اور اقتدار سے خوش نظر آتے ہیں۔
علی آغا کے نزدیک زندگی خوب صورتی کی علامت ہے۔ وہ حسن پرست ہیں اور ان کی غزلیں حسن کی تعریف سے لب ریز ہیں۔ انہوں نے نظامی، فضولی، شیروانی اور خاقانی کے لافانی کلام کو فارسی سے آذری میں منتقل کیا۔
ایک شاعر کے لیے اس سے بڑی اور کیا بات ہوگی کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو یاد رکھیں اور محبت سے ذکر کریں۔ آذربائیجان کے لوگ آج بھی علی آغا سے محبت کرتے ہیں۔ حکومتِ آذربائیجان نے ملک میں ایک پارک اور ایک اسکول کو علی آغا کے نام سے منسوب کیا ہے۔ ان کی ادب کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں باکو کے مئیر نے 1991ء میں باکو کے قدیم علاقہ اچاری شہر میں علی آغا کا ایک خوب صورت مجسمہ نصب کیا ہے۔ ہم نے آذربائیجان کے لوگوں کو مجسمہ کے سامنے پھول رکھ کر علی آغا سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے دیکھا ہے۔
اب علی آغا کی شاعری سے انتخاب ملاحظہ ہو جو انگریزی زبان سے ترجمہ شدہ ہے:
اے میرے محبوب ہر کوئی جانتا ہے میں غمگین ہوں، میں کیا کروں، میں ہر روز مرتا ہوں، تمھاری پلکیں تلواروں کی مانند اور بھوئیں کمان ہیں، تمھیں دیکھنے کے بعد کوئی سنبھل نہیں سکتا، لوگ کہتے ہیں تم ظالم ہو،مگر میں ایسا نہیں سمجھتا، تمھاری آنکھوں نے مجھے خون بہانے پر مجبور کر دیا ہے، تمھاری خواہش نے مجھے زندہ نہیں رہنے دیا، تمھاری آنکھیں مجھے ہرروز موت کی طرف لے جا رہی ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے