اس نے اطمینان بھرے لہجے میں مجھ سے سوال کیا: ’’یار! فرض کرو، جادو کا چراغ تمہارے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ تم نے چراغ رگڑا اور جن تمہارے سامنے حاضر ہو گیا۔ تم اپنی تین خواہشیں پوری کروا سکتے ہو۔ تمہاری وہ تین خواہشیں کیا ہوں گی؟‘‘ اس سے پہلے کہ غالبؔ کا شعر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
میرے ذہن کا رُخ کرتا، میں نے فوراً سے پہلے جواب دیا: ’’میری پہلی خواہش ہوگی کہ میرا سی ایس ایس کلیئر ہو جائے۔‘‘ اس نے اچانک کہا: ’’چلو ہوگیا اس کے بعد؟ ‘‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا: ’’دوسری خواہش یہ ہے کہ میرا اپنا بزنس ہو۔‘‘ اس نے ساتھ ہی کہا: ’’پہلے سی ایس ایس اور بعد میں بزنس، بات کچھ جچ نہیں رہی۔‘‘ تیسری خواہش بتانے سے پہلے میں نے کافی سوچا اور کہا: ’’میرا جن سے مطالبہ ہوگا کہ مجھے’نوبل پرائز‘ مل جائے۔‘‘ میری تیسری خواہش سنتے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی سے اچھلا اور دائیں ہاتھ کی انگلی سے مجھے پوائنٹ آؤٹ کر کے کہنے لگا: ’’ جو خواہش تمھیں سب سے پہلے کرنی چاہئے تھی، اس کے بارے میں تم نے سب سے آخر میں سوچا۔‘‘میں نے اس سے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’’یار، ہماری سوچ بہت ہی چھوٹی ہے اور ہماری خواہشیں ہماری اس چھوٹی سوچ کا نتیجہ ہیں۔ ہماری چھوٹی سوچ کی مثال یوں ہی ہے کہ اگر خدا سے تین چیزیں مانگنے کو کہا جائے، تو ہم سب سے پہلے ایک شاندار بلڈنگ کا مطالبہ کریں گے اور اس کے بعدایک گاڑی اور آخر میں کہیں گے کہ اے خدا!ہمیں اس بلڈنگ میں چپڑاسی کی نوکری دلا دے۔ ہماری قوم کی’وژنری‘ خواہش ہی دیکھ لو تم۔ بجائے یہ کہ ہم خدا سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی دعا کریں، ہم یہ التجا کر کے ہی اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں کہ اے خدا دو کی بجائے ایک گھنٹہ لوڈشیڈنگ کر دے ۔‘‘ اس نے مزید کہا: "A man is but the product of his thoughts. What he thinks, he becomes.” وقار کی اس گفتگو میں کئی ڈائی منشنز تھیں، جن میں سب سے اہم زاویہ سوچ کا ہے۔ یونیورسٹیوں سے ڈگری لینے والے گریجویٹس کی سوچ ہوتی ہے کہ انھیں کسی جگہ نوکری یا اچھی ملازمت مل جائے۔اپنا کاروبار شروع کرنے کا بہت کم لوگ سوچتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق کے دس حصوں میں نو حصے اپنے کاروبار اور تجارت میں جبکہ ایک حصہ نوکری میں ہے۔پھر بھی اکثریت ملازمت کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ شاید نوکری کی سوچ کا سکوپ دیکھنے میں کافی ہو،مگر یہ سچ ہے کے بزنس میں ’’رسک‘‘ زیادہ ہے اور ہم لوگ سکوپ کے پیچھے بھاگنے والے عوام ہیں جبکہ بزنس کا اصول ہے ’’ہائی رسک، ہائی ریوارڈ۔‘‘

ہماری سوچ بہت ہی چھوٹی ہے اور ہماری خواہشیں ہماری اس چھوٹی سوچ کا نتیجہ ہیں۔ ہماری چھوٹی سوچ کی مثال یوں ہی ہے کہ اگر خدا سے تین چیزیں مانگنے کو کہا جائے، تو ہم سب سے پہلے ایک شاندار بلڈنگ کا مطالبہ کریں گے اور اس کے بعدایک گاڑی اور آخر میں کہیں گے کہ اے خدا!ہمیں اس بلڈنگ میں چپڑاسی کی نوکری دلا دے۔

بھلا رسک سے ہمیں کیا سروکار؟ انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس کی سوچ پر ہے۔سوچ ایک ایسی سیڑھی ہے جو انسان کو زمین سے آسمان تک اور کبھی آ سمان سے زمین پر لے آتی ہے۔کوئی اپنی سوچ کو سچ کے اصول کے ساتھ باندھ لیتا ہے، تو کوئی اپنی سوچ کو جھوٹ کے قلعے میں قید کر لیتا ہے۔ کوئی روشنیوں کی ساری شمعیں بجھا کر خود کو مایوسی کے گہرے کنوئیں میں پھینک دیتا ہے اور کوئی دھندلکے میں بھی سورج کی پہلی کرن تلاش کرنے لگتا ہے۔ بائیس سال کی اس مختصر عمر میں میرے ساتھ کئی بار ایسا ہوا کہ کبھی زندگی کی سڑک پر اور کبھی شہر کی روڈ پر چلتے ہوئے راستہ بھول گیا۔ ہمیشہ کسی نہ کسی راہ چلتے نے راستہ دکھایا۔ اسلام آباد سے اکثر گھر واپس آتے ہوئے ٹرانسپورٹ نہ ملنے پر رک کر کسی کا انتظار کرنے کے بجائے اس سوچ کے ساتھ پیدل چلنا شروع کیا کہ زندگی میں کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں مسیحا ضرور ملا کرتے ہیں۔ اس سوچ پر یقین کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا کہ کبھی راہ گزرتی موٹرسائیکل اور کبھی کوئی کار مسیحا کی شکل میں سامنے آ کر رک جاتی۔ میرا اس سوچ پر یقین ہے کہ حالات جتنے بھی کٹھن ہوں، راہ میں جتنے بھی پتھر ہوں ، مسیحا ضرور ملا کرتے ہیں اور کبھی کبھی مسیحائی کا یہ کردار خود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ نیکی وبرائی اور گناہ و ثواب میں بھی ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ کوئی ۱۵ شعبان کی پہر میں دورانِ عبادت نوافل پڑھ کر سکون اور قربت حاصل کرتا ہے، تو کوئی بارگاہِ خداوند میں صرف آ نسو بہا کر گناہوں کا بوجھ اتارتا ہے۔ قدیم سے جدید دور کے سفر تک سوچ ہی ایجادات کی بانی ہے۔ سوچ میں نکھار پیدا کئے بنا شخصیت میں خوبصورتی ممکن ہی نہیں۔
سوچ وہ غیر جانبدار آئینہ ہے جس میں انسان اپنے آپ کو بخوبی دیکھ سکتا ہے۔جہاں ہر ایک شخص اپنی ایک مختلف سوچ رکھتا ہے، ا سی طرح ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سوچتا ہے۔ کسی کی سوچ سامنے نظر آنے والی پہاڑ کی وادی پر جا کر رُک جاتی ہے، تو کوئی اسی وادی کے پیچھے سے آنے والے قافلے کا اندازہ لگا لیتا ہے۔

میرا اس سوچ پر یقین ہے کہ حالات جتنے بھی کٹھن ہوں، راہ میں جتنے بھی پتھر ہوں ، مسیحا ضرور ملا کرتے ہیں اور کبھی کبھی مسیحائی کا یہ کردار خود بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔

کچھ دن پہلے میں اور عظیم رضا اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے ’’ڈایورسٹی ٹو یونٹی‘‘ کے موضوع پر بات کر رہے تھے۔ عظیم نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مجھ سے کہا: ’’آجکل لوگوں نے گہرائی میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ لوگ ایک ہی بات کا دوسرا رُخ نہیں سمجھ پاتے۔ تم نے خطبوں میں اکثر سناہوگا کہ ایک گناہگار شراب کی حالت میں راستے سے گزر رہا تھا۔ اسے زمین پر کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آیا۔ اس پر اللہ کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس نے اٹھا کر اسے چومااور اپنے گھر میں لا کر حفاظت سے رکھ دیا اور خدا نے اس کے اس عمل پر اس کے سارے گناہ معاف کرکے جنت اس کے نام لکھ دی۔ یہ واقعہ سننے کے بعد مسجدوں میں اکثر سبحان اللہ، سبحان اللہ کی صدائیں آتی ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس نے زمین پر گرے ہوئے خدا کے نام کو اٹھا کر چوما، تو جنت اس کے نصیب میں لکھ دی گئی، مگر اس کی اصل وجہ کچھ اور ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے نہیں۔‘‘ میں نے اشتیاق سے کہا: ’’مجھے بھی بتائیے وہ حقیقت کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’تمہیں معلوم ہوگا کہ شراب پینے کے بعد انسان اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے، وہ صحیح اور غلط اور حتیٰ کے اپنی ماں اور بیوی کے درمیان بھی فرق نہیں کر پاتا،تو خدا نے جب اس حالت میں اسے اپنے نام اور مخلوق کے نام میں فرق کرتا دیکھا، تو جنت اس کے حق میں لکھ دی کہ اگر یہ نشے کی حالت میں مجھے پہچان سکتا ہے، تو اصل حالت میں میرا قرب بھی حاصل کر لے گا۔‘‘