سین نو ریکیو (Sen No Rekyu) جو کہ جاپانی فلسفہ ’’وابی سابی‘‘ سے منسلک فلسفی ہیں…… کو ایک مرتبہ دعوت پر مدعو کیا گیا۔ میزبان نے اپنے ملازمین سے کہا کہ چائینہ سے منگوائے گئے سب سے مہنگے اور خوب صورت چائے کے سیٹ میں ریکیو کو چائے پیش کی جائے، تاکہ وہ متاثر ہوئے بنا نہ جانے پائے۔ دورانِ گفتگو ریکیو سارا وقت کھڑکی سے باہر لہرا رہی ایک بیل کا ذکر کرتے رہے اور چائے کے سیٹ پر اک نگاہ بھی نہ ڈالی۔ ریکیو کے جانے پر میزبان نے غصے میں چائے کا سیٹ توڑ دیا۔ ملازمین نے سیٹ اُٹھایا اور اسے پھینکنے کی بجائے جڑوا کر اس پر سونے کی پرت لگائی۔ اگلی بار جب ریکیو کو مدعو کیا گیا، تو اس ٹوٹے ہوئے چائے کے سیٹ میں چائے پیش کی گئی۔ ریکیو نے نگاہ ڈالتے ہوئے کہا: ’’اب یہ شاندار لگ رہا ہے۔‘‘
’’زین بدھ ازم‘‘ (Zen Buddhism) میں برتنوں کے ٹوٹ جانے پر انہیں فالتو سمجھ کر پھینکا نہیں جاتا…… بلکہ انہیں بہت محبت، صبر سے جوڑا جاتا ہے اور برتن میں پڑ چکی دراڑوں پر سونے کی پرت چڑھائی جاتی ہے۔ اس عمل اور اس کے پس منظر میں موجود فلسفے کو جاپانی زبان میں ’’کنتسوگی‘‘ (Kintsugi) کہتے ہیں جو سادگی، صبر، نامکملیت، عارضیت اور ٹوٹ کر دوبارہ جڑنے کا درس دیتا ہے۔
کنتسوگی کا فلسفہ کیا محض برتنوں تک محدود ہے…… یا اس فلسفے کو ہماری عام زندگیوں تک بھی رسائی حاصل ہے؟ آئیے، اس فلسفے کو اپنی عام زندگی پر اپلائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں نازی (Nazi) کیمپ میں رہنے والے اور ٹروما پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر ’’کیزامیئر ڈبراسکی‘‘ کی ریسرچ کے مطابق جو لوگ زندگی میں کسی حادثے یا ٹروما سے گزرتے ہیں، تو اس حادثہ کو سر کر لینے کے بعد ان کی مثبت مینٹل گروتھ ہوتی ہے۔ یہ وہ ٹائم تھا جب امریکہ میں سائیکالوجسٹ لوگوں کی سیلف اسٹیم بڑھانے، استاد بچوں کو گولڈن اسٹار دینے اور لکھاری ’’اور پھر سب ہمیشہ ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘ والی کہانیاں لکھنے میں مصروف تھے، جب کہ ڈبراسکی کا کہنا تھا کہ درد (Pain)، مصیبت اور جد و جہد بچوں میں لچک (Resilience) اور برداشت کی قوت پیدا کرتا ہے۔
ڈبراسکی خود بھی کنسنٹریشن کیمپس میں رہے اور نازی حکومت کے دوران میں اور اس کے زوال کے بعد ان لوگوں کی ذہنی حالت پر ریسرچ کی جو ٹروما سے گزرے تھے، ڈبراسکی کی ریسرچ کے مطابق حادثہ اور مصیبت کے شکار لوگوں نے مصیبت کو سر کرنے کے بعد مثبت ذہنی نشو و نما اور پہلے سے بھی زیادہ بہتر محسوس کرنے کی تصدیق کی۔ زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ مشکل وقت نے انہیں "Self-actualisation” میں مدد فراہم کی۔ کئیوں نے تو اس بات کا دعوا کیا کہ اگر وہ تکلیف سے نہ گزرتے، تو انہیں کبھی زندگی کے اصل معنی معلوم ہی نہ ہوتے اور وہ ملنے والی تکالیف اور مصیبتوں کے شکرگزار ہیں۔ چوں کہ اس وقت دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں پولینڈ (جہاں ڈبراسکی رہایش پذیر تھے) اور امریکہ کے درمیان ریسرچ کا زیادہ تر تبادلہ نہ ہوسکتا تھا، اس لیے ڈبراسکی کی ریسرچ اور ان کی تھیوری مثبت تحلیل کا نظریہ (Theory of Positive Disintegration) کافی عرصہ محض پولینڈ تک ہی محدود رہی۔ جہاں امریکہ کے سائیکالوجسٹ لوگوں کو خوش کرنے اور ’’پلیژر‘‘ فراہم کرنے کے طریقے ایجاد کرنے میں مصروف تھے، وہاں ڈبراسکی کی ریسرچ اس کے برعکس تھی۔
ہم سب اپنی زندگی میں بچپن یا عمر کے کسی بھی حصے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ سب کسی نہ کسی ٹروما سے گزرتے ہیں۔ ہمارے بھروسا، اعتماد یا خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچتی ہے، تو وہ کسی نازک برتن کی طرح ٹوٹ جاتا ہے۔ ان حادثات کا شکار انسان یا تو کنتسوگی کی طرح ان ٹکڑوں کر جوڑ کر ان دراڑں کو معنی خیز بناتا ہے، یا پھر ساری زندگی حادثات گزر جانے کے بعد بھی اسے دل سے لگائے کوستا رہتا ہے۔ حادثہ گزر جانے کے بعد فزیکل پین تو وقت کے ساتھ بھر جاتا ہے، لیکن ایموشنل پین ہمیشہ کے لیے دماغ میں محفوظ رہتا ہے…… جب تک کہ اسے معنی دے کر اس میں سے کچھ اخذ کرکے اسے "Let Go” نہ کیا جائے۔ جو لوگ ٹروما یا مصیبتوں سے گزر کر ابھرتے ہیں، وہ اپنے ارد گرد موجود ہر شے پر سوالیہ نظر ڈالنے لگتے ہیں۔ اپنے نظریات کو بدلنا یا چیلنج کرنا مشکل کام ہے، لیکن ایسے لوگ بہت آسانی سے اپنی ایک نئی پرسنلٹی تشکیل دینے لگتے ہیں جسے سائیکالوجسٹ ’’پوسٹ ٹرومیٹک گروتھ‘‘ کہتے ہیں، جو عام نشو و نما کی نسبت طاقت ور اور لچک دار (Resilient) ہوتی ہے ۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو جان کر ابیوز کریں، لیکن اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ انہیں برے احساسات سے نیچرلی گزرنے دے سکتے ہیں۔ ہر وقت ان کے آنسو پونچھنا یا ذرا سا رونے پر کوئی بھی پلیژر فراہم کر دینا ان کے اندر درد سہنے کی سکت کو کم کر دیتا ہے۔ یہ نظریہ محض بچوں کے لیے نہیں…… بلکہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہماری اپنی ذات پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے۔ مشکل وقت سے ابھر کر اپنی خامیاں یا اپنی شخصیت پر پڑچکی دراڑوں کو چھپانے کی بجائے انہیں صبر اور محبت سے جوڑ کر ان کو واضح کرکے کنتسوگی کے عمل سے گزرے برتن کی مانند دنیا کے سامنے لانے میں کوئی عار نہیں۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔